عمران خان کا جلسہ
یہ امکان تو موجود تھا کہ ہفتے کو منٹو پارک میں عمران خان کے جلسے کے دوران بارش ہوسکتی ہے لیکن بارش نے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں یا ان کے حامیوں پر کچھ زیادہ اثر نہ کیا۔
اگر پی ٹی آئی اُن لمحات میں اپنے حوصلے بُلند رکھ سکتی ہے تو پھر اسے اقتدار کے لیے سنجیدہ مدِ مقابل کی صورت دیکھنا چاہیے۔
جناب عمران خان کی جماعت کا مقابلہ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ سہ فریقی مقابلے میں بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ سب اتنا آسان نہ ہوگا۔ وہ ایک نئی جماعت تصور کی جاتی ہے اور اس کا مقابلہ سیاست کی ریس کے سدا بہار گھوڑوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون سے ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے لیے وہ ووٹرز ایک موقع کی صورت موجود ہیں جو اُن دونوں جماعتوں کو بار بار ووٹ دیتے رہے اور جو نتائج آتے رہے، اس سے تھک چکے، اب وہ نئی جماعت کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
پاکسستان مسلم لیگ نون پنجاب کے شہری متوسط اور تجارت پیشہ طبقات میں مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ صوبے کی ایک غالب اکثریتی جماعت سمجھتی جاتی ہے تاہم پی ٹی آئی اس کے لیے وہاں سنجیدہ خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔
پی ٹی آئی پنجاب کے بعض دیہی علاقوں اور خیبر پختون خواہ میں بھی مقبولیت رکھتی ہے۔
اگرچہ اسی طرح وہ کراچی کے شہری مرکز میں بھی ایک شان دار جلسہ منعقد کرچکی تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ باہر نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پارٹی کے لیے یہی جاذبیت پیدا کرسکتے ہیں۔
اگرچہ عمران خان لاہور کے جلسے میں پارٹی منشور سامنے نہ لاسکے تاہم ان کی طرف سے پیش کیے جانے ٹھوس پالیسی پیپرز قابلِ حمایت ہیں۔
ان کے جلسے نوجوانوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں، جن میں باہر موجود سیاسی عناصر کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے تمام عوامل موجود ہوتے ہیں۔
اگرچہ سن دو ہزار گیارہ کے بعد سے پی ٹی آئی کی مقبولیت کا گراف اوپر نیچے ہوتا رہا ہے تاہم اب انہوں نے یہ ظاہر کردیا کہ وہ انتخابات کے لیے بطور 'امیدوار' سامنے ہیں۔ اب یہ ووٹرز کو طے کرنا ہے کہ کیا وہ 'سونامی' کو انتخابی کامیابی میں تبدیل کریں گے۔