اُردو نصاب تبدیل
حکومت کی باگ دوڑ ایک سے دوسرے میں منتقل ہونے پر تیار ہے اور اس پر کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے ایک انتہائی اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔
بجائے اس کے کہ یہ سیاسی اشرافیہ کو اعتماد بخشے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ روایتی سیاسی ہتھکنڈوں سے کام لینے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
دسویں جماعت کے لیے اُردو کی تدریسی کتاب میں کی جانے والی تبدیلیوں پر پنجاب حکومت کا ردِ عمل اسی تناظر میں ہے، جس کا منظرنامہ نہایت سنگین ہے۔
فروری میں شائع ہونے والی اس درسی کتاب میں سے، نثر اور شاعری پر مبنی بعض ایسے حصے حذف کردیے گئے تھے، جن میں اسلام کے حوالے سے بحث موجود تھی۔
یہ وہ بات ہے جس کے لیے اصلاح پسند پچھلے کافی عرصے سے زور دے رہے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ نصاب میں اسلامیات بطور ایک مکمل اختیاری مضمون کے، موجود ہے۔
لہٰذا ادب کے مضمون میں، جو نثر اور طرزِ نگارش سے متعلق ہے، اور اس میں پڑھانے کے لیے بہت سا دیگر مواد بھی دستیاب ہے تو پھر ایسے مواد کو شامل کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
ریاست کے مرتب کردہ نصاب کو دہائیوں سے اس بنیاد پر تنقید کا سامنا رہا ہے کہ اس میں غالب طور پر، مذہب و جہادی تعلیمات شامل ہیں جو بچوں کے اندر جذب ہوتی جارہی ہیں۔ جس سے سماج میں پولرائزیشن بڑھ رہی ہے اور اقلیتی و ترقی پسند گروپوں کے لیے معاشرہ مزید سکڑتا جارہا ہے۔
تاہم اصلاح پسندوں کی طرف سے کیے گئے اس اقدام کو سمجھنے کے بجائے، جب اتوار کو پنجاب حکومت کے علم میں یہ بات لائی گئی تو ان کا ردِ عمل نہایت سخت تھا۔
بلاشبہ ، وہ سمجھتے ہوں گے کہ ایسا کرنے سے وسیع پیمانے پر لوگوں کے جذبات متاثر ہوسکتے ہیں، اسی لیے درسی کتاب سے حذف کیے گئے ابواب کو دوبارہ نصاب میں شامل کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
یہ شہباز شریف تھے۔ زوال کے آخری سال، جن کے سرکاری ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر تبدیلی کے حامی پیغامات صرف بدقسمتی کے سوا کچھ اور نہیں۔
کیا پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اس حد تک خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے؟ ہاں انہیں انتخابات میں کامیابی جو حاصل کرنی ہے لیکن اس سے بھی بڑی اہم بات، اس سے وسیع تناظر میں یہ ہے کہ ملک کی تعمیر نو کرنی ہے اور گھر اس وقت تک از سرِ نوترتیب نہیں دیا جاسکتا جب تک اس کے قائدین، اس مقصد کے لیے، ایک سے زیادہ طریقوں کو نہ سمجھ لیں۔
اگلی حکومت کی شکل خواہ کیسی ہی ہو، لڑائی جیت کے لیے ہوگی مگر کہیں بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح ملک کو، جیسا کہ وہ آج ہے، تنگ نظری کے پنجے سے نکال کر اس کا، ازسرِ نو رخ، استحکام، ترقی اور سلامتی کی سمت موڑا جائے۔
اس کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوگا، اور جہاں ضرورت پڑے، دائیں بازو کے حامل جذبات کے سامنے بھی کھڑا ہونا ہوگا۔ اب صرف چند ہی ایسی علامتیں ہیں کہ جس سے یہ امید ملتی ہے کہ سیاسی اشرافیہ میں ایسا کرنے کی ہمت اور عزم موجود ہے۔