کابل: طالبان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے افغانستان میں ایک ممکنہ امن معاہدے کے لئے امریکہ سے مذاکرات کےلئے قطر میں اپنے نمائیندے بھیجنے کی پاکستان سے اجازت لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے فیصلے آزادانہ طور پر کرتے ہیں۔
طالبان کی ویب سائٹ پرشامل کئے گئے ایک بیان کے مطابق وہ تمام معاملات میں اپنی ذاتی پسند ، اسلامی قوانین کی روشنی اور قومی مفاد کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔
' ہم قطعی طور پر یہ کہتے ہیں کہ اسلامی امارات کے نمائیندے پاکستان کے کہنے پر قطر نہیں گئے۔ جمعرات کو ان کی ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ اس بیان میں طالبان نے عام طور پر اپنے لئے مروجہ اصطلاح استعمال کی۔
' اسلامی امارات اپنے تمام امور میں مکمل طور پر خود مختار اور آزاد ہے۔ '
خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں پاکستان کے سفیر محمد صادق نے کہا کہ ان کی حکومت نے افغانستان میں ایک ممکنہ امن معاہدے کی تائید کی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے چند طالبان کو اس کام کے لئے خلیج کے سفر کی اجازت دی تھی۔
اوبامہ حکومت کی جانب سے افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت اورطالبان کے درمیان فوری امن مذاکرات کی اُمید اس وقت ماند پڑگئی جب مارچ میں طالبان نے امریکی سفارتکاروں کی نگرانی میں کئے جانے والے مذاکرات سے انکار کردیا تھا۔
امریکی عہدیداروں کو امید تھی کہ طالبان سے ان کی ابتدائی ملاقات کے بعد گوانتا نامو بے میں قید طالبان رہنماوں اور طالبان کی قید میں موجود امریکی سپاہی کی تبادلہ رہائی کی راہ ہموار ہوگی اور آخرکار تمام افغان فریقین کے درمیان مستحکم امن کی گفتگو شروع ہوگی۔
طالبان کے مطابق امریکیوں اور اسلامی امارات کے نمائیندوں کے درمیان ابتدائی اور اعتماد سازی کے مذاکرات شروع کئے گئے تھے جو اس ( امارات) کی حکم پر روک دئیے گئے۔
مذاکرات کے تعطل کا اعلان کرتے ہوئے طالبان نے اس کا الزام امریکہ پر لگاتے ہوئے اس کی مذاکراتی پوزیشن کو غیریکساں قرار دیا۔
افغان حکومت نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی جانب سے علیحدہ طور پر طالبان نمائیندوں سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ایسی حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے جو ان کے نزدیک ایک 'کٹھ پتلی ' حکومت ہے۔
جمعے کو ایک علیحدہ بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ اس ہفتے انہوں نے جاپان میں منعقدہ افغانستان کے مستقبل کے لئے ایک کانفرنس میں اپنا نمائیندہ بھیجا تھا لیکن اس کا مقصد صرف اپنی پوزیشن واضح کرنا تھا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جبتک امریکہ سے مذاکرات کے معاملات طے نہیں پاجاتے اس وقت تک کرزئی انتظامیہ سے گفتگو بے معنی ہی رہے گی۔