نقطہ نظر

عمران خان کا سپنا

عمران خان کا 'نئے پاکستان' کا نعرہ کسی انقلاب کا نظریہ کم، دیوانے کا خواب زیادہ لگ رہا ہے

عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنی پارٹی کو آنے والے الیکشن میں کامیاب ہوتے دیکھا ہے. انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی ان کا خواب سچ ہوگا.

تقریبآ سولہ سال تک پاکستانی سیاست میں ایک غیر نمایاں حیثیت رکھنے ک بعد بلاخر پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئ نے ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے اور دو بڑی جماعتوں کے لئے چیلنج بن گئی ہے. لیکن کیا عمران خان کا الیکشن جیتنے کا خواب سچ ہو پاۓ گا؟ شاید ابھی نہیں.

یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کافی فعال ہو گئی ہے خاص طور سے نوجوان نسل کے درمیان جن میں مایوسی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے. برٹش کونسل کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کی نوجوان نسل کا ایک بڑا تناسب ملک کے مستقبل اور جمہوریت کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہے.

نوجوان ووٹروں کی یہ تعداد جو کم و بیش 30 ملین یا یوں کہہ لیں کے رجسٹرڈ ووٹروں کا 30 فیصد ہیں دیگر سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کے لئے ایک بڑا چیلنج ہیں. جمہوریت کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کے باوجود نوجوان نسل کی اکثریت ووٹ ڈالنا چاہتی ہے جو کہ آنے والے انتخابات پہ واضح طور پہ اثر انداز ہو سکتی ہے.

اپنی تمام تر مایوسی کے باوجود نوجوان نسل یقیناً ملک میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بن سکتی ہے. درحقیقت یہ کسی مخصوص نظریے یا سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والا گروہ نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان جو ایک بات مشترکہ ہے وہ موجودہ ملکی حالات جس ڈگر پہ چل رہے ہیں ان سے انحراف ہے-

آج سے پہلے پاکستان کبھی بھی کسی تبدیلی کے لئے اتنا تیار نہیں تھا. مقتدر جماعتوں کے حوالے سے تحفظات، مختلف عوامی راۓ اور سرویز سے صاف واضح ہیں. اسی لئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ نوجوان نسل کی اکثریت نے عمران خان اور ان کی جماعت سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں. وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز سے ہی نوجوانوں کو اہمیت دی.ان کے زیادہ تر حامی وو نوجوان ووٹرز ہیں جو کہ ملک کے غیر یقینی مستقبل، معاشی بدحالی اور غیر محفوظ حالات کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں. وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کو اقتدار میں دیکھنے کے لئے بے چین ہیں جو ان کو بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکے.عمران خان کا یہ فیصلہ کہ 30 فیصد پارٹی ٹکٹ جوان اور پہلی بار انتخابات میں حصّہ لینے والے امیدواروں کو دیے جایئں گے نوجوانوں کے لئے پی ٹی آئ کی حمایت کو اور مضبوط کرتا ہے.

لیکن، عمران خان کے یہ حمایتی صرف شہروں کے متوسط طبقوں تک ہی محدود ہیں جب کہ دیہاتوں میں رہنے والا نوجوان طبقہ جو کہ ایک بڑی اکثریت ہے کو پارٹی نے بہت کم متاثر کیا ہے.

اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی مقناطیسی شخصیت اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت، ملک کی، خاص طور سے پنجاب کی روایتی، مستحکم اور طاقتور سیاسی جماعتوں کوانتخابات میں مات دینے میں کامیاب ہو سکے گی؟

ملک کا سب سے اھم اور طاقتور صوبہ آنے والے انتخابات میں ایک اہم میدان جنگ ہوگا. حالانکہ عمران خان کے انتخابی نعرے "ایک نیا پاکستان" اور "ہم تبدیلی لا سکتے ہیں" نے ملک کی غیر مطمئن نوجوان نسل کو کافی متاثر کیا ہے لیکن اس میں وہ زور نہیں ہے جو ملک کی روایتی مقتدر جماعتوں کی اجارہ داری کو ختم کر سکے.

مزید یہ کے یہ پیغام بڑا غیر واضح ہے اور عام آدمی کے لئے اس میں بہت کم وعدے ہیں. پوری دنیا میں انتخابی نعرے کسی بھی انتخابی مہم کا اہم حصّہ ہوتے ہیں. ہوسکتا ہے یہ الیکشن جیتنے میں معاون نہ ہوں لیکن یہ عوام کی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.

1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کا نعرہ "روٹی، کپڑا، اور مکان" عوام کا پاکستان پییپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی وجہ بنا. ان تین الفاظ نے پی پی پی کے پورے جمہوری ایجنڈے کا احاطہ کر لیا اور پاکستان کی غریب عوام کو کافی متاثر کیا. مگر بھٹو صاحب کو بھی سب سے زیادہ حمایت نوجوان نسل ور تعلیم یافتہ طبقے سے حاصل ہوئی تھی.

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پی پی پی کی اس فتح کو "حق راۓ دہی کے ذریے انقلاب" کا نام دیا گیا، یہ اور بات ہے کہ بعد میں حالات نے الگ ہی رخ اختیار کر لیا. اس دن کے بعد سے آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اتنے پر اثر پیغام کے ساتھ اپنی انتخابی مہم نہیں چلائی.

یہ سچ ہے کہ یہ 1960 یا 1970 کا وہ زمانہ نہیں جب ملکی سیاست دو نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی جس میں ایک طرف تو لبرل ازم کے حامی تھے تو دوسری طرف مذہبی اصلاحات کے ماننے والے. آج 2013 میں پاکستانی معاشرے کو معاشرتی، نظریاتی اور سیاسی حوالے سے شدید اختلافات کا سامنا ہے.

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی ایک تہائی عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اس وقت ملک کی معاشرتی حالت دگرگوں ہے. اپنی تخلیق کی چھے دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہ ملک اب تک دنیا میں اپنی شناخت ڈھونڈ رہا ہے. آج تک مختلف مکاتب فکر کے درمیان یہ جنگ چل رہی ہے کہ پاکستان کو کس قسم کی ریاست ہونا چاہیے ایک بین الاقوامی دہشتگردی کا مرکز یا ایک معتدل مسلم ریاست.

ان حالات میں عمران خان کا ایک نۓ پاکستان کا نعرہ کسی انقلاب کا نظریہ کم اور ایک دیوانے کا خواب زیادہ لگ رہا ہے. نۓ پاکستان کا نعرہ مبہم ہونے کی وجہ سے تھوڑا مشکوک ہو گیا ہے. یہ پی پی پی اور پی ایم ایل-این کی کرپشن اور نا اہلی پر زیادہ زور دے رہا ہے اور یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ملک کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی جیسے بڑے مسائل سے پارٹی کس طرح نمٹے گی.

پی پی پی کے برعکس پی ٹی آئ کے پاس کوئی ایسا دماغ نہیں ہے جو پارٹی کی رہنمائی کر سکے. پی ٹی آئ کو وجود میں آئے اٹھارہ سال ہو چکے ہیں اور اب تک اس کے پاس کوئی نظریاتی بنیاد نہیں ہے. پارٹی پالیسی پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کےسابق قدامت پرست ارکان اثر بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا نعرہ فقط ایک نعرہ ہی نظر آرہا ہے.

عمران خان ایک طرف تو موروثی سیاست کے خلاف جنگ کا وعدہ کرتے ہیں ور دوسری طرف دائیں بازو کے گروہوں کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ بھی نظر آتے ہیں جو کہ سمجھ سے باہر ہے. پی ٹی آئ کا جے آئ اور دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ارینجمنٹ پر گٹھ جوڑ نے پاکستان کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے.

عمران خان اب تک یہ بھی واضح نہیں کر پاۓ کو وہ تاریخ کے کس حصّے میں جگہ بنانا چاہتے ہیں. ان کا انتہا پسندی اور جارحیت کی طرف دوہرے جذبات نے ایک نۓ پاکستان کے حوالے سے امیدوں کو کم کر دیا ہے. اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر وہ تاریخ کے غلط حصّے میں کھڑے نظر آتے ہیں.

پی ٹی آئ آنے والے الیکشن میں یقیناً ایک با اثر جماعت کے طور پر سامنے آۓ گی لیکن عمران خان کا اقتدار میں آنے کا خواب کم از کم اس بار پورا ہوتا نظر نہیں آتا.


لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں zhussain100@yahoo.com Twitter: @hidhussain

ترجمہ: ناہید اسرار

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔