پشاور،اسلام آباد: اس ہفتے افغانستان کی سرحد پار کرنے والے پاکستان طالبان رہنما فضل اللہ کے سو سے زائد وفادارعسکریت پسند ایک پہاڑ پر پاکستانی فوجیوں کا تحمل سے انتظار کرتے رہے۔
کئی دن بعد انہی جنگجوؤں نے اُن سترہ فوجیوں کے سروں اور شناختی کارڈز کی ویڈیو جاری کی جو عسکریت پسدنوں کے حملے میں پکڑے گئے تھے۔
سفید چادر پر پڑے یہ سر پاکستان کی سیکورٹی کو لاحق ایک اہم خطرے ایف ایم فضل اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ وہی فضل اللہ جسے تین سال قبل دو ہزار نو میں فوجی آپریشن کے دوران سوات سے نکال کیا گیا تھا۔
ایک مغربی سفارت کار نے اُسے پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
اپنے عروج کے دنوں میں فضل اللہ نے ہزاروں جنگجو تیار کیئے، جو سوات کی خوبصورت وادی میں دندناتے رہے اور بزورِ طاقت خودساختہ اسلامی شریعت نافذ کرتے رہے ۔
اُس دور میں یہ شدت پسند اپنے مخالفین اور بدکردار سمجھے جانے والوں کو کوڑے مارتے، بعض کے سر قلم کر کے چوکوں اور چوراہوں پر لٹکا دیتے اور سرکاری عمارتیں اور لڑکیوں کے اسکول بھی جلا دیتے۔
لیکن آج کل فضل اللہ کے حامی پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی صوبے نورستان میں بیس کلومیٹر طویل پٹی پر قابض ہیں ۔یہ علاقہ دشوار گزار ہے اور اسی وجہ سے امریکی فوجی اس علاقے کو ‘چاند کا تاریک حصہ’ کہتے ہیں۔
فضل اللہ اسی علاقے سے سرحد پار حملے کرتا ہے جس میں زیادہ فوجی تو نہیں مارے جاتے مگر پھر بھی یہ حملے پاکستانی فوج کیلئے بہت پریشان کن ہیں ۔
پاک – افغان سرحدی علاقہ، جسے امریکی صدر اوباما دنیا کے خطرناک ترین علاقہ سمجھتے ہیں، میں اُس کی کارروائیاں اتحادی فوج کے انخلاء سے قبل افغانستان میں استحکام کی کوششوں کو پیچیدہ کر سکتی ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان سے نبرد آزما پاکستانی فوج کیلئے فضل اللہ ایک نیا مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔
فضل اللہ کے قریبی عزیز اور ترجمان سراج الدین احمد کے مطابق ان کے گروہ کا مقصد سوات پر دوبارہ قبصہ اور پورے پاکستان کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
ایک نامعلوم مقام سے انہوں نے فون پر رایئٹرز کو بتایا کہ: 'ہمارا مقصد شریعت کا نفاذ ہے اور اپنے مقصد کی تکمیل تک ہم آرام سے نہیں بیٹھں گے ۔ ہمارے راستے میں جو بھی آئے گا ہم اس سے جنگ کریں گے'۔
فضل اللہ نے افغانستان میں پناہ حاصل کر کے اور مقامی عسکریت پسندوں کی حمایت اورمدد سے اپنے گروہ کو اُس علاقے میں منظم کیا جہاں امریکہ، پاکستان اور افغانستان خلاف مختلف گروہ اتحاد قائم کیئے ہوئے ہیں۔
ایک پاکستانی سیکورٹی عہدیدار کے مطابق’فضل اللہ بہت خطرناک ہے۔اس کے پاس ڈیڑھ سو کے قریب جنگجواور جدید خودکار اسلحہ موجود ہے' ۔
انہوں نے بتایا کہ موثر کاروائیوں کے لئے چند افراد ہی کافی ہوتے ہیں لیکن اس کے پاس بڑی تعداد میں وفادار لوگ موجود ہیں۔
اپنے جوشیلے ریڈیو خطبات کی وجہ سے مشہور فضل اللہ وہ پہلا طالبان سربراہ تھا جس نے پاکستان کے قبائیلی علاقوں سے باہر کسی علاقے کا قبصہ کیا۔
تاہم اس بات کے کوئی خدشات نہیں کہ وہ پاکستان کے قصبوں یا شہروں میں گھس پائے گا کیونکہ اس کا گروہ ایک بڑی لہر کی طرح آتا ہے اور حملہ کرنے کے بعد واپس افغانستان چلا جاتا ہے۔
تاہم اس کی مسلسل کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان کی عسکری قیادت نے بار ہا افغان حکومت اور نیٹو افواج سے اس کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان کے صوبے نورستان کے پولیس سربراہ غلام اللہ نورستانی کے مطابق فضل اللہ افغان علاقے میں عام لوگوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے، وہاں بھتے وصول کر رہا ہے اور ٹرکوں سے مال چورے کرنے کے علاوہ کبھی کبھار ڈرائیوروں کو بھی قتل کر رہا ہے، تاہم اس سب کے باوجود اس کے خلاف کسی قسم کے ایکشن دیکھنے میں نہیں آ رہا۔
'ہم ان سے لڑ نہیں سکتے کیونکہ ان کے پاس ہم سے بہتر ہتھیار ہیں۔ اگر مرکزی حکومت یا اتحادی افواج ہماری مدد کریں تو ہم ان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کر سکتے ہیں۔‘
ایک پاکستانی سیکورٹی عہدے دار نے بتایا کہ فضل اللہ کے آدمی عموماَ رات کو سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور اونچے پہاڑوں پر پوزیشنیں سنبھال لیتے ہیں ۔
‘ہماری گشتی ٹیمیں اور گاڑیاں سرحد کی حفاظت کرنے میں مصروف رہتی ہیں اور وہ موقع پا کر ہماری ٹیموں پر حملے کرتے ہیں۔
انٹیلی جنس عہدیداران کا کہنا تھا کہ فضل اللہ کے آدمی افغانستان کے صوبے کنڑ اور نورستان میں مصروفِ عمل ہیں اور انہیں مقامی عسکریت پسندوں کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔
یہ عسکریت پسند گروہ پاکستان اور افغانستان میں امریکہ کی حمایت یافتہ حکومتوں کے خلاف یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
کنڑ کے ایک عسکریت پسند گروہ کے سربراہ کے مطابق: 'ہم میں سے زیادہ تر ایک دوسرے کومدرسوں کی وجہ سے پہلے سے ہی جانتے ہیں' ۔
'جب ہمیں افغانستان میں آپریشن کرنا ہوتا ہے تو ہم ان سے مدد مانگتے ہیں اور وہ ہمیں جنگجو فراہم کرتے ہیں اسی طرح جب انہیں مدد چاہئے ہوتی ہے تو ہم ان کی معاونت کرتے ہیں'۔