پاکستان

بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں کامیاب

گیارہ مئی کے تاریخی انتخابات میں شورش زدہ بلوچستان میں نینشل پارٹی نے آٹھ صوبائی نشستیں جیتی ہیں۔

کوئٹہ: پاکستان کے سب سے بڑی صوبہ بلوچستان میں بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں نے واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

 اس طرح شورش اور عسکریت پسندی کے شکار اس اہم ترین صوبے میں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں اتحادی حکومت کیلئے اہم ترین فریق ہیں۔ گیارہ مئی کے تاریخی انتخابات میں بلوچ قوم پرست جماعت، نیشنل پارٹی نے دو قومی اور صوبائی کی آٹھ نشستیں حاصل کیں۔ اسی طرح پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ( پی کے ایم اے پی) نے صوبائی کی 10 اور قومی اسمبلی کی تین نشستیں جیت کر صوبے کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔

پی کے ایم اے پی نے کوئٹہ میں صوبائی اسمبلی کی چار سیٹیں جیتی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون اور مجلس وحدت المسلمین نے ایک ایک سیٹ حاصل کی۔ تاہم، ایک اور اہم جماعت، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی نے پی کے ایم اے پی کی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ بلوچستان کی اہم سیاسی شخصیت سردار اختر مینگل کی اس جماعت نےالزام لگایا ہے کہ بی این پی کو پارلیمنٹ سے دور رکھنے کی سازش کی گئی ہے۔

بی این پی کے سربراہ، سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کی فتح کو شکست میں بدلا گیا ہے اوراسی لئےوہ الیکشن نتائج کو مسترد کرتے ہیں۔

پی کے ایم اے پی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کوئٹہ اور ان کے آبائی علاقے چمن سے قومی اسمبلی کی دو سیٹیں جیتی ہیں۔

اچکزئی کی جیت کی وجہ صوبے میں ہزارہ اور پنجابیوں کے قتلِ پر ان کی پارٹی کی مذمت اور ان کا مضبوط مؤقف ہے ۔ آباد ہونے والے بہت سے افراد نے ٹارگٹ کلنگ پر اچکزئی کے مؤقف پر این اے  259 سے انہیں ووٹ دیئے ہیں۔

غیر مصدقہ تنائج کے تحت، پاکستان مسلم لیگ نون نے بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ پی ایم ایل این نے کوئٹہ میں قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے اچکزئی کی غیر مشروط حمایت کی جبکہ نواز شریف اور اچکزئی کے دیرینہ اور بہترتعلقات بھی قائم ہیں۔ اور مستقبل میں بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے کیلئے ان کے درمیان فطری امکانات موجود ہیں۔ دوسری جانب سینیٹر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک بلوچ سے بھی نواز لیگ کے تعلقات باہمی افہام و تفہیم پر مبنی ہیں۔ اسی لئے ان تینوں کے درمیان حکومتی اتحاد کےامکانات روشن اور واضح ہیں۔

دلچسپ اور حیرت انگیز امر یہ ہےکہ ماضی میں صوبے کی حکمراں جماعت ، پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) صوبے سے ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام ( فضل الرحمان) ، جے یو آئی ایف نے نے بلوچستان کے پشتون علاقوں سے چھ نشستیں حاصل کی ہیں۔

شاید اب جے یو آئی ایف اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کو ترجیح دے کیونکہ وہ گزشتہ دس سال سے اقتدار میں ہےاور حکومت میں بڑا حصہ لیتی رہی ہے۔

بلوچ علاقوں میں ووٹنگ کی شرح کم رہی اور آواراں میں ایک امیدوار نے صرف چھ سو چالیس ووٹوں سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی۔

 بلوچ نیشنل فرنٹ کی اپیل پر بلوچ علیحدگی پسندوں نے انتخابات کی مخالفت کی اورتین روز تک شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔ تاہم کوئٹہ اور دیگر پشتون علاقوں میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ بلند رہا۔