عورتوں پر تشدد: افغانی پارلیمان قانون سازی میں ناکام
کابل: افغانستان کی پارلیمان عورتوں پر تشدد کے خلاف قانون پاس کرانے میں ناکام ہو گئی۔
اسلامی طالبان کے بعد سے قدامت پسند مسلم ملک میں خواتین کے حقوق میں پیش رفت کرنے کے لئے خواتین کو شدید دھچکا لگا ہے۔
صدر حامد کرزئی کے دو ہزار نو میں قانون کی منظوری کے بعد اس قانون کو پارلیمنٹ کی توثیق کی ضرورت تھی۔
واضح رہے کہ افغان خواتین کے خلاف تشدد، بچوں کی شادی اور جبری شادی کے خلاف سنہ 2009 میں انغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے ایک قانون پاس کیا تھا لیکن اسے پارلیمان کی جانب سے منظوری نہیں مل سکی تھی۔
اسمبلی کے قدامت پسند اور سیکولر ارکان کے درمیان بحث کے نتیجے میں اس کو کسی اور تاریخ پر ملتوی کر دیا گیا۔.
پارلیمنٹ وومن کمیشن کی سربراہ فوزیہ کوفی نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ آج پارلیمنٹ کے ارکان عورتوں کی ترقی، عورتوں کے حقوق، اور ان کی کامیابیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
فوزیہ کوفی کا کہنا تھا کہ ’یہ بات یقینی نہیں کہ افغانستان کا کوئی بھی صدر خواتین کے مسائل بطور خاص اس قانون کے تحت اس قدر سنجیدہ ہوگا ان کا کہنا ہے کہ اس طرح عورتوں کے خلاف تشدد کے قانون کا خاتمہ ہوجائے گا۔
طالبان کی حکومت کا بارہ سال پہلے تختہ الٹنے کے بعد سے افغانی عورتوں نے حق تعلیم اور کام کے لیئے سخت جدوجہد کی ہے نیٹو کی افواج اگلے سال کے آخر تک افغانستان چھوڑ رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ اس کے بعد یہ آزادی صلب ہو سکتی ہے۔