ایک حقیقت، ایک فسانہ

13 اکتوبر 2014
السٹریشن -- احمد امین
السٹریشن -- احمد امین

لوئر مڈل کلاس کے دو دلوں میں جانے کب سے محبت بُکل مارے بیٹھی تھی۔ پھر ایک رات پڑوس میں مہندی کی ایک تقریب میں نازلی سکھیوں کے ہمراہ انڈین گانے کی دھن پر ناچی تو بابر قدرے جھجھکتے ہوئے سامنے آیا اور اس کے قدموں کی تال پر نظریں جمائے خود بھی تھرکنے لگا۔

نازلی کو لگا جیسے دلہن کے گھر کے درودیوار اس کی سنگت میں محوِ رقص ہوں۔ نظریں چار ہوئیں تو گردش دوراں تھم سی گئی۔ رقص کے دوران ہی نازلی نے خاموشی سے دل کے رومال پر اس کا نام کاڑھ لیا اور بابر نے بھی اپنی چاہت کا ہار نازلی کے گلے میں ڈال دیا۔

کھلی رنگت اور سرو قد نازلی نے بابر کی محبت کی خلعت فاخرہ پہنی تو جیسے جیون میں رنگ سے بھر گئے۔ اولین محبت کے پاگل پن کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ وہ بابر کے ساتھ اس کی پرانی موٹر سائیکل پر اڑتی پھرتی۔ رازو نیاز کے لیے زمان پارک کا شمال مشرقی کونہ ان کے لیے پرائم لوکیشن تھا، جہاں پہنچتے ہی درختوں کے پتے تالیاں بجا کر انہیں خوش آمدید کہتے اور سرخ گلاب کے پھول ہالہ کر لیتے۔

وہ غٹر غٹر باتیں کرتی اورچپس یا برگر کھاتے اچانک دونوں پاؤں اٹھا کر بینچ پر رکھ لیتی یا بابر کی کسی بات پر کھکھلا کر ہنستے ہوئے نیچے رکھ لیتی اور قہقہ لگاتے دہری ہو جاتی تو ان دلربا اداؤں پر کلیاں چٹخنے لگتیں اور پھول جھوم کر واری واری جاتے۔ نازلی پر بابر کی محبت کا چھاچھوں مینہ برسا تو وہ نہال ہو گئی۔ پھر ایک دن زبان اور کان کے رشتے کو بدن کے رشتے میں بدلنے کے لیے بابر کی ماں اس کے گھر رشتہ لے کر آ گئی۔ نازلی کے ماں باپ نے بخوشی ہاں کہہ دی اور دوسرے ہی دن منگنی کی سادہ سی تقریب میں دونوں نے ایک دوسرے کے نام کی انگوٹھیاں پہن لیں۔ دل اور بھی قریب آ گئے۔

پھر ملک میں عام انتخابات کا بگل بج گیا۔ رنگ برنگے بینروں، جھنڈوں، جلسوں اور ریلیوں کا موسم آگیا۔ نازلی ایک نئی سیاسی جماعت "انقلابی پارٹی" کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی، جس کا چیئرمین ملک سے استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے پر عزم تھا۔ وہ اس جماعت کے مقامی امیدوار ملک منور شرجیل کی محلے میں ہونے والی کارنر میٹنگ میں گئی تو اس کی آتش بجاں تقریر نے نازلی کے بغاوت شعار جذبات کو ایسی جلا بخشی کہ وہ انقلابی پارٹی کو دل دے بیٹھی۔

پارٹی کے منشور اور پروگرام میں اسے اپنی تمام محرومیوں کا مداوا نظر آتا تھا۔ وہ باقاعدہ جیسے ملک منور شرجیل کی فورس میں شامل ہو گئی اور سہیلیوں کے ہمراہ اس کے جلسوں اور کارنر میٹنگز میں عزم و ولولے سے شرکت کر کے ملک وقوم کے لیل ونہار بدلنے کے خواب دیکھنے لگی۔ ادھر بابر شروع ہی سے "پاکستان سلامت پارٹی" کا پر جوش کارکن اور اس کے یوتھ ونگ کا ممبر تھا۔ سلامت پارٹی نے اس حلقے سے خان خدا بخش کو ٹکٹ دیا تھا۔ خان نے پارٹی ورکروں کی میٹنگ بلائی، جس میں بابر بھی شریک ہوا۔ الیکشن لڑنے کی حکمت عملی ترتیب دی گئی اور ورکروں کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ خان خدا بخش کی جذباتی تقریر نے ورکروں میں نئی روح پھونک دی اوروہ جوش و خروش سے اسے کامیاب کرانے کے لیے جُت گئے۔

آج پہلی بار بابر اور نازلی میں اختلاف ہوا تھا۔ دونوں جذبات کے بگولوں پر سوار ایک دوسرے کو اپنے اپنے امیدوار کے حق میں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چونکہ ٹھوس دلیل کسی کے پاس نہ تھی لہذا تلخ کلامی ہوگئی اور نازلی پہلی مرتبہ بابر سے لڑ بیٹھی۔ ملک میں ابھی جمہوری رویے اتنے پختہ نہ ہوئے تھے کہ دونوں اپنے اپنے سیاسی نظریات پر قائم رہتے ہوئے اکٹھے چل سکتے۔ فون اور ملاقاتوں میں بحث و مباحثہ جاری رہا، مگر دونوں اپنے اپنے نظریات پر استقامت اور ثابت قدمی سے ڈٹے رہے۔ نازلی نے انا کے گنبد کو آسمان بنا لیا تو بابر نے غیرت کا مسئلہ۔

محبت میں دراڑیں آتی گئیں، دونوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں ملک منور اور خان خدا بخش کی شر انگیز تقریروں نے خوب چتاؤنی دی، جو سیاسی اختلافات کو نکتہ اشتعال تک لے گئے۔ دونوں لیڈر اپنی تقاریر میں مخالف امیدوار پر ایسی بے رحمی سے الزامات کی سنگ باری اور گالیوں کی بوچھاڑ کرتے کہ لگتا اگر سامنے آجائیں تو ایک دوسرے پر فائر کر دیں۔ دونوں ایک دوسرے پر مالی بد عنوانیوں اور اشتہاریوں کو پناہ دینے کے سنگین الزامات عائد کرتے، جو کسی حد تک درست بھی تھے۔

پھر ایک دن کارنر میٹنگ سے خطاب کے بعد خان خدا بخش پارٹی ورکروں سے مل رہا تھا۔ جب بابر نے اس سے ہاتھ ملایا تو خان نے کہا "سناؤ بھئی! تمہاری مہم کیسی جا رہی ہے؟" بابر سے پہلے ہی ایک اور ورکر چہک کر بولا "سر! اس کی منگیتر دشمنوں کے کیمپ کی پر جوش ورکر ہے، یہ کیا خاک مہم چلائے گا؟"۔ خان خدا بخش نے حیرت سے بابر کو دیکھا تو اس کا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس نے فوراً ایک فیصلہ کرلیا۔ اسے ملاقات کے لیے ایس ایم ایس کرنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑی تھی۔ نازلی کا پیغام پہلے ہی آ گیا۔ اسے بھی آج اپنی پارٹی میٹنگ میں ایسا ہی طعنہ مل چکا تھا۔

غریبوں اور لوئر مڈل کلاسیوں کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے مفادات کے لیے اپنی زندگیاں تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ آج پہلی دفعہ وہ زمان پارک میں الگ الگ بینچوں پر بیٹھے تھے۔ درختوں کے پتوں اور گلابوں کو یہ بات اتنی بری لگی کہ انہوں نے آج تالیاں بجائیں، نہ ہی جھومر ڈالا۔ تند خوئی اور تنک مزاجی اپنے عروج پر تھی۔ محبت کے آبگینے حصار سنگ کو توڑنے میں ناکام رہے۔ چاہت کی لے ٹوٹ گئی، پیار کی تان بگڑ گئی۔

تلخ نوا مذاکرات میں ناکامی کے بعد نازلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا "میرا اور تمہارا سر ایک تکیے پر اکٹھے نہیں ہو سکتے، کبھی نہیں"۔ دونوں نے اپنے اپنے ہاتھوں کو انگوٹھیوں کے بار سے آزاد کیا اور انہیں ایک دوسرے کے حوالے کر کے مخالف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔ تیز ہوا چلی، پھولوں نے نوحہ گری کی اور پتوں نے ماتم داری۔ گھر آ کر نازلی اپنے کمرے میں گھس کر خوب روئی۔ جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اس نے پوری قوت سے دل کا شٹر گرایا اور موبائل سم تبدیل کرلی۔

انتخابات میں سلامت پارٹی جیت گئی۔ منور شرجیل بھی خان خدا بخش سے ہار گیا۔ مصائب نے جیسے نازلی کا گھر دیکھ لیا۔ وہ محبت کے تخت سلیمان سے گری تو انقلابی پارٹی کے ذریعے لیل و نہار بدلنے کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔ پھرچند روز بعد اس کا باپ خاموشی سے مٹی اوڑھ گیا۔ ماں بیٹی دنیا میں بے یارومددگار رہ گئیں۔ تلخ حقائق کی تمازت نے خوابوں کا گلستان خاکستر کردیا۔ سوگ اور جذبات کے گرداب سے نکلی تو نازلی کو اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا۔ محبت کی راکھ میں دبی چنگاریاں سلگنے لگیں۔ مہجور صبحیں اور فرقت زدہ شامیں اسے کاٹنے لگیں۔

ایک روزوہ اپنے گھر سے نکلنے لگی تو گلی میں دور اسے بابر جاتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے دل میں ہوک سی اٹھی، دل کا شٹر اس نے جس زور سے گرایا تھا، وہ اتنی ہی قوت سے اٹھ گیا، مگر اس میں داخل ہونے والا کوئی اور چوکھٹ پار کر چکا تھا۔ بابر کی ماں نے منگنی ٹوٹنے کے بعد اس کی شادی اپنی بہن کی بیٹی زاہدہ سے کردی تھی۔ نازلی کی ماں نے بھی اس کے رشتے کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی مگر ایک تو کفیل کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد چھائی غربت اور اوپر سے وہ بابر کی محبت میں اتنی بدنام ہوئی تھی کہ ہر طرف سے جواب ہو گیا۔

ماں نے ہمت نہ ہاری اور آخر کامیاب ہو گئی۔ تارکول کی رنگت والا ادھیڑ عمر شمشیر ایک سرکاری ڈسپنسری میں نائب قاصد تھا، جس کی بیوی دو بچے چھوڑ کر دنیا کے دکھوں سے آزاد ہو گئی تھی۔ نازلی آخر شب کے ہارے ہوئے جواری کی طرح ڈولی میں بیٹھی اور شمشیر کے ڈربہ نما گھر میں آ گئی۔ شمشیر، اس کی ماں اور بچوں کی خدمت کرتے اورطعنے، جھڑکیاں اور جوتے سہتے آٹھ سال کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران وہ خود بھی تین بچوں کی ماں بن گئی۔ کارزارِ حیات میں وہ گھمسان کا رن پڑا کہ اس کا شعلہ آفریں حسن قصہءِ پارینہ ہو گیا۔

حورشمائل نازلی کے چہرے کی شادابی تنگ دستی، ناکافی خوراک اور دل کی ویرانیوں نے مل کر چاٹ لی۔ ادھر بابر کو بھی ترک محبت مہنگی پڑی تھی۔ نیم خواندہ زاہدہ ایک لڑاکا، فضول خرچ اور بد دماغ عورت تھی، جس نے خاموش طبع بابر کی زندگی جہنم بنا دی۔ وہ اسے اٹھتے بیٹھتے نازلی کے طعنے دیتی۔ دو دفعہ اس نے اپنے بھائیوں کو بلوا کر ان سے بابر کو پٹوایا بھی تھا۔ گھر کے خراب حالات کا اثر کاروبار پر بھی پڑا اور بابر مقروض ہو گیا۔ نازلی کیا روٹھی کہ اس کا مقدر بھی روٹھ گیا۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اپنی کریانے کی دکان بیچ کر شربت کی ریڑھی لگا لی اور اس سے زندگی کی ریڑھی کھینچے لگا۔ وہ وقت سے بہت پہلے ہی بوڑھا نظر آنے لگا تھا۔

سلامت پارٹی کی حکومت بمشکل ڈیڑھ سال ہی چل سکی تھی۔ امن وامان کی تباہ کن صورتحال نے ملکی معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دی۔ پھر فوج کے سربراہ نے اس کے خلاف کرپشن اور نااہلی کی چارج شیٹ تیار کر کے اسے چلتا کیا اور خود اقتدار سنبھال لیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے قوم سے حالات ٹھیک ہوتے ہی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ پھر کئی ساون بھادوں اور چیت بیساکھ بیت گئے مگر حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ سات سال بعد اس صاحب اقتدار نے اصلاح احوال کا کارگر نسخہ آزمایا اور ملک کے کونے کونے سے دیانتدار اور باکردار سیاستدان چن کر سرکاری پارٹی تشکیل دی اور انتخابات کا اعلان کردیا۔

خان خدا بخش اور ملک منور شرجیل دونوں اس پارٹی میں شامل ہو گئے اور اسی شہر سے بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار بن کر میدان میں اتر آئے۔ وہ ضمیر کی قربانی دے کر ملک بچانے نکلے تھے۔ نازلی کے سیاسی نظریات حالات کی بھٹی میں جل کر بھسم ہو چکے تھے، لیکن جب اسے یہ خبر ملی تو وہ دم بخود رہ گئی۔ جن لیڈروں نے سیاسی اختلافات کو حق و باطل کا معرکہ بنا کر اس کی زندگی تباہ کی تھی، آج وہ ایک ہی پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ دو موٹے موٹے آنسو بے کس کی آنکھوں سے لڑھک کر اس کے گریبان میں ضم ہو گئے۔

نازلی کا چھوٹا بچہ پوری رات بخار میں جلتا رہا تھا۔ صبح وہ اسے گود میں اٹھا کر شمشیر کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر نے اپنے نائب قاصد کے بچے کا ہمدردی سے معائنہ کیا اور دواؤں کے ساتھ کچھ ہدایات بھی دیں۔ شمشیر کی نوکری کا وقت تھا، وہ اکیلی باہر نکل کر بڑی سڑک تک آئی اور رکشے والوں سے بات کی مگر کوئی بھی سو روپے سے کم پر تیار نہ ہو رہا تھا۔ مہینے کی آخری تاریخیں تھیں اور وہ سو روپے کی عیاشی افورڈ نہ کر سکتی تھی جبکہ شمشیر اسے مہینے بھر کا لگا بندھا خرچہ دے چکا تھا۔ وہ بچے کو سینے سے لگائے پیدل ہی گھر کی طرف چل پڑی۔

انتخابات کی گہما گہمی عروج پر تھی۔ وہ فٹبال گراؤنڈ کے قریب پہنچی تو گولوں کی گھن گرج اور ڈھولوں کی تھاپ پر سرکاری پارٹی کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اس نے دور سے دیکھا کہ سٹیج پر ملک منور شرجیل اور خان خدا بخش ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بلند کیے ہوئے تھے۔ نازلی جسے مرگِ تمنا تو یاد تھی مگر فرصتِ ماتم نہ تھی، یہ منظر دیکھ کر اس کا دل بے اختیار ماتم کرنے کو چاہا۔

وہ غیر ارادی طور پر نسبتاً کم رش والی جگہ پر فٹ پاتھ سے اتر کر دو قدم اندر گراؤنڈ میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ ملک منور شرجیل تقریر کر رہا تھا "میرے بڑے بھائی خان خدا بخش اور میں ایک تھے، ایک ہیں، اور ایک رہیں گے"۔ خدا بخش نے جذباتی انداز میں کھڑے ہوکر تالی بجائی تو حاضرین نے پرجوش نعروں کی گونج میں اس کی تقلید کی۔

یہ منظر اور الفاظ زہر میں بجھے ہوئے تیر کی طرح نازلی کے دل میں کھب گئے۔ مزید کچھ دیکھنے، سننے کی اس میں تاب نہ تھی۔ وہ واپس پلٹی تو پل صراط کی ساعت اس کی منتظر تھی۔ بابر فٹ پاتھ پر اپنی شربت کی ریڑھی کے پاس کھڑا، انگلی دانتوں میں دبائے ویران آنکھوں سے جلسے کا منظر دیکھ رہا تھا۔

جگر فگار جوڑے کی آنکھیں چار ہوئیں تو ایک برق بلا کوند گئی۔ دل کے پھپھولے جل اٹھے۔ ساکت کھڑے بابر اور نازلی کی آنکھوں نے چند لمحوں میں ایک دوسرے سے ہزاروں شکوے کر ڈالے۔ نازلی میں کھڑا رہنے کی ہمت نہ رہی، وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی اور اپنے بوسیدہ دوپٹے سے پسینہ پونچھنے کے بہانے آنسو صاف کرنے لگی۔ بابر نے شربت کا گلاس بھر کر اس کے قریب رکھا اور خود بھی اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔ وہ برسوں بعد اس سے مخاطب ہوا تھا "بہنے دے، مت روک آنسوؤں کو نازو، انہیں بہنے کے لیے اس سے بہتر منظر کب میسر ہوگا؟"۔

نازلی نے سر اٹھا کر دیکھا، بابر کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ اس نے بچے کو اپنی چادر بچھا کر فٹ پاتھ پر لٹا دیا، پھر دونوں ہاتھوں سے بابر کے داہنے گھٹنے کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر اپنا سر رکھ دیا۔ اسے جگ سے ذرا بھی لاج نہ آئی۔ وہ یوں دھاڑیں مار کر روئی کہ آسمان دہل گیا، زمین کے کانوں پر مگرجوں تک نہ رینگی۔ ڈھولوں کی تھاپ پر جلسہ جاری رہا۔

تبصرے (5) بند ہیں

muzzammal raza Oct 13, 2014 06:10pm
to much true and nice....
muzzammal raza Oct 13, 2014 06:07pm
very very nice and heart touching
Waseem Oct 13, 2014 08:31pm
وقار بھائی مندرجہ ذیل لنک پر موجود بلاگ پڑھئے اور عند اللہ ماجور ہوں۔ http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=10174
Ali Tahir Oct 13, 2014 11:17pm
وقار......... ایک با ر پھر آپ نے خنجر چلا دیا یار....... بہت خوب بہت عمدہ. غلام عباس کے حسرت آمیز "کتبہ" کی یاد تازہ کردی آپ نے. خدا شاہد ہے الفاظ گونگے ہو گئے ہیں تعریف کیا کروں بس اتنا ہی کہ سکتا ہوں کہ میری دعا ہے خداکرے زور قلم اور زیادہ........ آباد رہو....شاد رہو......
asif Oct 14, 2014 12:53pm
یہ ایک بہت اچھی کاوش ہے -ماشاء اللہ