کراچی: پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سربراہ توصیف عالم نے کہا ہے کہ سمندری طوفان نیلوفر جسے حکام نے ’’انتہائی شدید سمندری طوفان‘‘ قرار دیا تھا، کراچی سے 250 کلومیٹر کے فاصلے سے گزرجائے گا۔

تاہم توصیف عالم نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس طوفان کی بیرونی لہریں پاکستان کے ساحلوں سے ٹکرائیں گی اور اس کے سبب ملک کے جنوبی حصوں خاص طور پر سندھ کے قحط سے متاثرہ جنوبی اضلاع میں آندھی اور بارشیں ہوں گی، جبکہ ساحلی علاقوں میں بلند لہریں پیدا ہوں گی۔

دوسری جانب سمندری طوفان کے چودہ کلومیٹر فی گھنٹے کے حساب سے آگے بڑھنے کے پیش نظر حکومتِ سندھ نے صوبائی دارالحکومت کراچی اور چار دیگر اضلاع میں ایمرجنسی کے ساتھ جمعہ کے دن تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

کلفٹن کے ساحل پر برقعے میں ملبوس لڑکیاں اپنے ٹیب سے تصویر لے رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
کلفٹن کے ساحل پر برقعے میں ملبوس لڑکیاں اپنے ٹیب سے تصویر لے رہی ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

اس کے علاوہ ساحلی علاقوں میں رہائش پذیر افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔

موسم سے متعلق ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سمندری طوفان نیلوفر صوبہ سندھ اور ہندوستانی ریاست گجرات کی جانب بڑھ رہا ہے اور ان ساحلی علاقوں سے جمعرات کی سہہ پہر تک ٹکرائے گا۔ جس کے ساتھ ہی سندھ کے زیریں حصوں میں اگلے دو روز کے دوران شدید بارش کا امکان ہے۔

ٹھٹھہ ، بدین، سجاول اور تھرپارکر سمیت کراچی کے تمام چھ اضلاع میں سندھ حکومت نے ہنگامی حالت کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ جمعہ کے روز تمام سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔

یہ بات سندھ کے وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن نے بدھ کے روز وزیراعلٰی ہاؤس میں کابینہ کے اجلاس کےبعد کلفٹن میں واقع اپنے دفتر میں میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔

وزیرِاعلٰی سید قائم علی شاہ کی زیرِصدارت کابینہ کے اجلاس میں وزراء، بیوروکریٹس اور فوج و بحریہ کے افسران نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں سمندری طوفان، تھرپارکر میں قحط سالی اور محرم الحرام کے تناظر میں سیکورٹی کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

سیٹیلائٹ سے لی گئی سمندری طوفان نیلوفر کی تصویر جو ناسا کی ویب سائٹ پر رات دو بجے پبلش کی گئی تھی۔ —. فوٹو بشکریہ ناسا
سیٹیلائٹ سے لی گئی سمندری طوفان نیلوفر کی تصویر جو ناسا کی ویب سائٹ پر رات دو بجے پبلش کی گئی تھی۔ —. فوٹو بشکریہ ناسا

صوبائی وزیرِاطلاعات نے کہا کہ تمام ساحلی علاقوں میں ہنگامی مراکز قائم کردیے گئے ہیں، جبکہ ان علاقوں میں مقیم افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان اضلاع کے اندرچند دنوں کے لیے محفوظ مقامات پر منتقل ہوجائیں۔

انہوں نے بتایا کہ متعلقہ ضلعی حکومتوں کو ان لوگوں کی مناسب دیکھ بھال کے لیے ایک کروڑ روپے جاری کردیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ سندھ نے بھی تمام ساحلی علاقوں میں مقیم ماہی گیروں اور دیگر افراد کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے انتظامات کرلیے تھے، اس کے ساتھ ان کے مفت قیام و طعام کے بھی انتظامات کرلیے گئے تھے۔

شرجیل میمن نے بتایا کہ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ اگلے دو روز کے دوران شدید بارش اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے کی حادثے سے بچنے کے لیے اپنی نقل و حرکت کو محدود کردیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی جانوں کے زیاں سے بچنے کے لیے حکومت نے بڑے اشتہاری بورڈوں کو ہٹانا شروع کردیا ہے، اور ان کے مالکان کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اشتہاری بورڈوں کو ہٹادیں، اگر بالفرض ان کی وجہ سے کسی کی جان جاتی ہے تو پھر اس کا انہیں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

کراچی کا ساحل ویران پڑا ہے، اور ایک لائف گارڈ بیٹھا ہوا سمندر کی لہروں کو دیکھ رہا ہے۔ —. فوٹو اے پی
کراچی کا ساحل ویران پڑا ہے، اور ایک لائف گارڈ بیٹھا ہوا سمندر کی لہروں کو دیکھ رہا ہے۔ —. فوٹو اے پی

وزیرِاطلاعات کے مطابق جب تک سمندری طوفان کا خطرہ ٹل نہیں جاتا، اس وقت لوگوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ انتہائی ناگزیر صورت کے علاوہ اپنے گھروں سے باہر نہیں آئیں۔

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات کا مقصد لوگوں کو خوفزدہ یا ہراساں کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد تمام احتیاطی اقدامات کو بروئے کار لانا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 80 فیصد ماہی گیر پہلے ہی واپس آگئے تھے، جبکہ جو ابھی کھلے سمندر میں موجود ہیں، انہیں کوسٹ گارڈ، بحریہ اور میری ٹائم ایجنسیوں کے ذریعے ریڈیو پیغامات بھیج دیے گئے ہیں اور امید ہے کہ طوفان کے ساحلی علاقوں سے ٹکرانے سے قبل وہ بھی واپس آجائیں گے۔

شرجیل میمن نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ محکمہ موسمیات نے کراچی میں تیس سے پچاس فیصد ملی میٹر بارش کی پیشگوئی کی ہے، جبکہ ساحلی علاقوں میں 100 ملی میٹر سے زیادہ کی بارش متوقع ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں