اپنا کردار ادا کریں

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2014
ہر تین میں سے ایک لڑکی تشدد اور جنسی استحصال کا نشانہ بنتی ہے، لیکن اس کو روکنے کے لیے ہم سب کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ہر تین میں سے ایک لڑکی تشدد اور جنسی استحصال کا نشانہ بنتی ہے، لیکن اس کو روکنے کے لیے ہم سب کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہر تین خواتین اور لڑکیوں میں سے کم از کم ایک اپنی زندگی میں تشدد اور استحصال کا نشانہ بنے گی، اور یہ ایک ارب سے زائد زندگیوں کے صدمے اور زخموں سے تباہ ہونے کا باعث ہے۔

ہر تین میں سے ایک، یہ صرف ایک خوفناک شمار نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی لڑکی اپنے گھر میں مارپیٹ کا شکار ہوتی ہے، یا پھر ایک تباہ کن جنسی استحصال کا۔

اس کا مطلب ہے کہ روزانہ کہیں کوئی لڑکی اپنا بچپن 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کے باعث کھو دیتی ہے۔ ایک نوجوان لڑکی حساس اعضا کے مسخ کیے جانے کا سامنا کرتی ہے، جس کی وجہ سے شدید ذہنی اور جسمانی تکلیف اس کی زندگی کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔ بالکل اسی وقت، اسی لمحے یہ سب کچھ کہیں نہ کہیں ضرور ہورہا ہے۔ وہ آپ کی دوست بھی ہوسکتی ہے، آپ کی پڑوسی بھی، آپ کے ساتھ کام کرنے والی بھی۔ یہاں تک کہ آپ کے خاندان کی بھی۔ اب اگلا نشانہ کون ہے؟

ہر تین میں سے ایک۔ تین لڑکیوں کی ماں ہونے کے باعث میرے لیے یہ تصور بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ یہ سوچنا بھی خوفناک ہے کہ مردوں کے لیے عام ترین جگہیں بھی لڑکیوں اور عورتوں کے لیے کس قدر خطرناک بن سکتی ہیں۔ ہمیں پارک میں یا کہیں جاتے ہوئے جنسی زیادتی یا تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ہمیں اسکول میں یا انٹرنیٹ پر ہراساں کیا جاسکتا ہے۔ خطرہ ہمیشہ ہر جگہ موجود ہے، لیکن لڑکیوں اور عورتوں پر تشدد سب سے زیادہ وہاں ہوتا ہے جہاں ہمیں محفوظ ہونا چاہیے، یعنی اسکول میں ، گھروں میں، اور اپنے شریکِ حیات کے ساتھ۔

ہر تین میں سے ایک۔ یہ بات مجھے غصہ دلاتی ہے۔ میں ایک بیٹے کی ماں بھی ہوں۔ میں اس بات کو قبول نہیں کروں گی کہ وہ ایک ایسی دنیا میں رہے جہاں مردانگی کے تصور کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب تک ہمارے لڑکوں کو یہ بات سکھائی جاتی رہے گی کہ مردانگی کا مطلب غلبہ، اور تشدد قابلِ قبول ہے، تب تک ہم وہ باہمی عزت اور برابری حاصل نہیں کرسکیں گے، جو کہ لڑکے اور لڑکی، اور مرد اور عورت کے درمیان کسی بھی رشتے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کی اس وبا کی بنیادی وجہ دونوں جنسوں کے درمیان برابری کا نہ ہونا ہے۔ ہمیں اس بات پر دوبارہ سوچنا ہوگا کہ مرد ہونے یا عورت ہونے، لڑکے ہونے یا لڑکی ہونے کا کیا مطلب ہے۔

اقوامِ متحدہ کی خیرسگالی سفیر برائے خواتین کی حیثیت سے میں بچ جانے والی کئی خواتین سے ملی ہوں۔ اس معاملے میں کس چیز کی ضرورت ہے اور کیا طریقے کام کرتے ہیں، میں نے اس بارے میں بہت سیکھا ہے۔ میں یہ بات جانتی ہوں کہ قانون کا فرض ہے کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کو تحفظ اور بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے تاکہ وہ تشدد سے پاک زندگی جی سکیں، اور استحصال کرنے والوں کو کٹہرے میں لایا جاسکے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بچ نکلنے والی خواتین کو محفوظ مقام، طبی سہولیات، نفسیاتی کونسلنگ اور قانونی مشورے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 1995 میں بیجنگ فورتھ ورلڈ کانفرنس آن وومین کا انعقاد ہوا تھا، تو میں ایک نوجوان اداکارہ تھی۔ اور بیجنگ میں ہونے والے اس ایونٹ سے دور ہونے کے باوجود میرے لیے یہ امید افزا گھڑی تھی۔

دنیا بھر کے ممالک نے صنفی برابری قائم کرنے، اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عزم کیا۔ اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ خواتین کے خلاف تشدد، برابری قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ تشدد کا شکار ہونے والی لڑکیاں اور خواتین تعلیم حاصل کرنے، کام کرنے، اور زندہ رہنے کے مواقع کھودیتی ہیں۔ انہیں زندگی بدل کر رکھ دینے والے طبی اثرات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ شرم کے باعث وہ سماجی زنگی سے کٹ کر رہ جاتی ہیں۔ لڑکیوں اور خواتین کی زندگی کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں جب انہیں تشدد کا سامنہ، یا اس کا خطرہ نہ ہو۔

بیجنگ کے بعد سے اب تک بہت کچھ ہوچکا ہے۔ ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں، تو یہ صاف ظاہر ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے رائے عامہ کس قدر ہموار ہوچکی ہے۔ آج پہلے سے کہیں زیادہ لڑکیاں اور خواتین قانون اور خدمات کے تحفظ میں ہیں۔ لڑکوں اور مردوں نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے اور برابری کے پرچار کے لیے کوششوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ لیکن کام اب بھی باقی ہے۔

یہ ہم سے شروع ہوگا اس لیے ادھر ادھر مت دیکھیں اور نہ ہی گفتگو کا موضوع تبدیل کریں۔

میرے نزدیک لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تشدد سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہے۔ اس لیے اقوام متحدہ کی خیرسگالی سفیر کی حیثیت سے میں نے اس مسئلے پر سب سے زیادہ بات کی ہے۔ ایک اداکارہ اور ایک کارکن کے طور پر میں آواز بلند کرسکتی ہوں اور آگاہی پھیلانے میں مدد کرسکتی ہوں۔ ایک پڑوسی اور دوست کی حیثیت سے میں جب بھی تشدد اور استحصال ہوتے دیکھوں، تو مداخلت کرسکتی ہوں۔ ایک ماں کے طور پر میں اپنے بچوں کو سکھا سکتی ہوں کہ خود کی اور دوسروں کی عزت کریں۔ میں انہیں سکھا سکتی ہوں کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تفریق اور تشدد کی نہ حمایت کریں، اور نہ ہی اسے قبول کریں۔ لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تشدد کو ماضی کا قصہ بنانے کے لیے ہمیں اپنی حال اور مستقبل کی نسلوں سے شروع کرنا ہوگا۔

25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے لے کر 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن تک، دنیا بھر میں کارکن صنفی تشدد کے خلاف اپنی آواز بلند کریں گے۔ وہ ہر جگہ اورنج رنگ کا استعمال کریں گے تاکہ کسی کے لیے بھی اس مسئلے کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہے۔ اس میں حصہ لیجیے۔ اپنے آس پاس کے علاقے میں اورنج رنگ کریں۔ اپنے پڑوسیوں، دکانوں، اور اسکولوں تک جائیں اور اس مسئلے پر بات کریں۔

ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جس میں لڑکیوں اور خواتین کے خلاف کوئی تشدد نہیں ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں برابری، عزت، اور انصاف صرف خیالی باتیں نہیں ہوں، اور جہاں یہ سب صرف کچھ لڑکیوں اور خواتین کی پہنچ میں ہونے کے بجائے ہر کسی کی پہنچ میں ہو۔ اس پورے کام کی تکمیل کے لیے ہم سب کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنا کردار کب ادا کریں گے؟

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر برائے خواتین ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

WAK Nov 23, 2014 03:33am
Films main jub nangay scenes dekha kar nojawano main ishtial phelaya jata ha to ya bhi ek bari waja ha ek aam larki ka sath jansi tashadud ki.