اسٹریٹ چلڈرن کی مدد کریں

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2014
پاکستان میں تقریباً 12 لاکھ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں اور اکثر جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں — فوٹو اے پی/فائل
پاکستان میں تقریباً 12 لاکھ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں اور اکثر جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں — فوٹو اے پی/فائل

رات کو کافی دیر ہوچکی تھی۔ تنویر صدر کے علاقے میں ایک خالی شہزور ٹرک میں سورہا تھا۔ گاڑی میں پرانی بوتلوں سے تکیے اور بستر کا کام لیا جاتا تھا، اور کئی لڑکے دن بھر اس میں باری باری سویا کرتے تھے۔

چھ بڑے لڑکے اس کے پاس آئے۔

'ایک نے میرے ہاتھ باندھے۔ دوسرے نے میرا منہ بند کیا۔ تیسرے نے میرے کپڑے اتارے۔ چوتھے نے مجھے مارنا شروع کیا، اور پانچویں نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کرنی شروع کردی'۔ سالوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی تنویر کو سب واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔ 'اگر میرے پاس زہر ہوتا، تو میں کھا لیتا۔ اس کے بعد میں کسی سے اس بارے میں بات نہیں کرسکا، نہ ہی میرے پاس کسی کو بتانے کے لیے الفاظ تھے'۔

پاکستان کی سڑکوں پر 12 لاکھ سے زائد بچے رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنسی و جسمانی طور پر تشدد کا شکار بنتے ہیں، اور آخرکار نشے میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

تنویر نے اپنے والد سے ناراض ہوکر 12 سال کی عمر میں اپنے گھر کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ وہ سڑکوں پر رہ کر گاڑیاں صاف کرنے اور دوسرے کام کرنے لگا تاکہ گزارا کیا جاسکے۔

'صدر میں کئی ہوٹل ہیں، تو ناشتے اور کھانے کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ آپ اگر صحیح جگہ پر ہیں، تو دن میں تین وقت کھانا مشکل نہیں'، تنویر نے کہا۔

لیکن گلیوں میں رہنے کی ایک قیمت ہے جو تنویر نے چکائی ہے۔

'میں جن بچوں کے ساتھ رہتا تھا، وہ سب کے سب نشہ کرتے تھے، اور انہوں نے مجھے بھی ایسا کرنے کے لیے اکسایا'۔

تنویر پر اپنے ساتھیوں کی جانب سے سخت نشہ کرنے کے لیے کافی پریشر تھا۔ اس نے سگریٹ پینا اور گٹکا کھانا شروع کیا لیکن پوڈر اور صمد بانڈ سے دوری بنائے رکھی۔ ایک دن اس کا ایک دوست اوور ڈوز ہوجانے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے سامنے مر گیا۔

یہ واقعہ تنویر کو جگانے کے لیے کافی تھا۔ اس نے تمام چیزوں کو چھوڑ دینے کا عہد کیا۔

'میں روپڑا۔ میں نے سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال ترک کر دیا۔ میں اس کی طرح نہیں مرنا چاہتا تھا'۔ اس کے بعد تنویر نے کچھ ایسا کہا، جو اس کی اور گلیوں میں رہنے والے دوسرے بچوں کی زندگیوں کی ایک بہت واضح تصویر ہے۔

'گلیوں میں رہنے والا بچہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کے پاس کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے سارے جذبات کو بوتل میں بند کر کے نشہ کرنا شروع کردیتا ہے، اور اسی طرح اس کا اختتام ایدھی سینٹر پر ہوتا ہے، جہاں ایک بے نام قبر اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ ہمارا یہی اختتام ہے۔'

جب میں تنویر سے ملی، تو وہ اپنی زندگی تبدیل کرچکا تھا۔ وہ Initiator Human Development Foundation کے ساتھ کام کر رہا تھا، جو کہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، جس کا کام اسٹریٹ چلڈرن کو بچانا اور انہیں معاشرے میں واپس لانا ہے۔ تنویر اب ایک اسٹریٹ موٹیویٹر کام کر رہا ہے۔ وہ بے گھر بچوں کو ہنر سیکھنے، کام ڈھونڈنے، اور انہیں اپنے خاندانوں میں واپس جگہ دلانے کے لیے کام کرتا ہے۔

'اسٹریٹ موٹیویٹر کا کام یہ ہے کہ وہ گلیوں اور سڑکوں پر جائے، بچوں کی سنے، اور ان کی ضروریات کو سمجھے۔ ہم اس کام کے دوران محتاط رہتے ہیں تاکہ بچے ڈر نہ جائیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ان کا حصہ ہوں، اور یہ کہ میں انہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ بچے آسانی سے ڈر جاتے ہیں۔ مافیا اور پولیس ان بچوں کا فائدہ اٹھاتی ہے اس لیے وہ بھی کافی محتاط ہوتے ہیں۔'

وہ اس بات کی پوری کوشش کرتا ہے کہ بچوں کو بتایا جائے کہ کس طرح ان کی زندگی تبدیل ہوسکتی ہے۔ وہ انہیں اپنی مثال دیتا ہے کہ کس طرح IHDF کی وجہ سے اس کی زندگی تبدیل ہوئی۔

ذرا تصور کریں کہ گھر سے نکال دیا جانا، یا گھر چھوڑ کر پاکستان کی سڑکوں پر رہنا کس قدر مشکل ہے۔ جن بچوں کو ہم اپنی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، کچرہ کھنگالتے، یا ہم سے بچا ہوا کھانا مانگتے دیکھتے ہیں، ان سب کے اپنے نام، اپنی کہانیاں، اور اپنے خاندان ہیں۔ ہم صرف ان کے چہروں کو گاڑیوں کے شیشے سے دیکھتے ہیں اور پھر وہاں سے نکل جاتے ہیں۔

تنویر کی کہانی نے میری آنکھیں کھول دیں کہ یہ بچے کتنی مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن اس کہانی نے مجھے یہ امید بھی دلائی کہ ان کی زندگی تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ ایک سادہ سی نیکی، ایک کام، تعلیم کی آفر، مدد کا ایک ہاتھ ایک زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کرسکتا ہے۔

تنویر نے یہ اکیلے نہیں کیا۔ اس کے پیچھے IHDF کے سربراہ رانا آصف حبیب ہیں، جو کئی سالوں سے اسٹریٹ چلڈرن کی بہتری کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کی اس خدمت کے لیے کوئی ایوارڈز نہیں ہیں، یہ ایک غیر نفع بخش کام ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ روزانہ مسکراتے ہوئے اپنے کام پر پہنچتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے اقدامات سے تبدیلی آرہی ہے، اور بس اتنا بہت ہے۔

'مجھے اپنی زندگی پسند ہے۔ جب میں نے اپنی جاب شروع کی تو مجھے 7000 روپے ماہانہ ملا کرتے تھے، اور اب 15،000 ملتے ہیں۔ یہ صرف جاب اور آفس نہیں ہے، یہ میرا گھر ہے، اور یہاں جو میرا اچھا وقت گزرا ہے، میں کبھی نہیں بھولوں گا'، تنویر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

'جو ان لوگوں نے میرے لیے کیا ہے، مجھے یقین نہیں کہ کوئی دوسرا ایسا کبھی کرتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ایک اچھا کام کر رہا ہوں، اور مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اس اچھے کام کا صلہ دے گا'۔


Initiator Human Development Foundation کی مدد کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ http://www.initiator.org/aboutus.php

تنویر کی کہانی مزید جاننے کے لیے http://www.aaj.tv/aes/child-abuse.html وزٹ کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 9 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں