حکومتی توجہ کے منتظر تھر میں جماعت الدعوۃ کی ریلیف سرگرمیاں

21 نومبر 2014
تھر کے گاؤں کیکاری میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تنظیم فلاح انسانیت کو تیس کنوؤں کی تعمیر کے لیے دیئے گئے عطیے کی تختی ایک دیوار کے قریب نصب ہے—۔فوٹو/ یوسف ناگوری
تھر کے گاؤں کیکاری میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تنظیم فلاح انسانیت کو تیس کنوؤں کی تعمیر کے لیے دیئے گئے عطیے کی تختی ایک دیوار کے قریب نصب ہے—۔فوٹو/ یوسف ناگوری

صحرائے تھر کے شہر اسلام کوٹ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سرنگھو میں نوجوان اور بڑی عمر کے مرد نہایت جوش و خروش سے ایک کنویں کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں۔

تھر کے ایک باسی نیاز محمد چانڈیو نے بتایا کہ 'ایک 130 فٹ گہرے کنویں کا مطلب ہے کہ یہاں کے مسلم اورغیر مسلم دیہاتیوں کو پانی بھرنے کے لیے آدھے کلومیٹر کی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی'۔

چانڈیو نے کالعدم جماعت الدعوۃ کی تنظیم 'فلاحِ انسانیت' کے لیے کام کرنے والے خالد سیف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اس دوردراز علاقے میں کنواں کھودنے کے لیے وسائل اور تمام ضروری مالی معاونت دستیاب بنانے کے لیے ان کے بہت شکر گزار ہیں'۔

انھوں نے صحرا میں پانی حاصل کرنے کی مشقت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے ان کنوؤں کے ساتھ علیحدہ سے حصے بھی بنائے ہیں تاکہ جانوروں اور پرندوں کے لیے پانی رکھا جا سکے اور پانی کے ہر قطرے کو پوری طرح استعمال کیا جا سکے'۔

کالعدم جماعت الدعوۃ کی فلاحی تنظیم 'فلاح انسانیت' کافی عرصے سے تھر میں نہ صرف سماجی، فلاحی اور ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے، بلکہ تنظیم کی جانب سے اکثرو بیشتر میڈیا کو یہاں کا دورہ بھی کروایا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ جماعت الدعوۃ کو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا، جبکہ فلاح انسانیت، جماعت الدعوۃ کی جانب سے ملک میں سماجی تعلقات بڑھا رہی ہے۔

'فلاح انسانیت' کے لوگو پر مشتمل جیکٹ پہنے تنظیم کے رکن خالد سیف نے تھر میں اپنی تنظیم کے کام کی ابتدا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'تھر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم نے 2002 میں کام کا آغاز کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا نے ہم پر پابندی ضرور لگائی تھی لیکن جب وفاقی حکومت نے ہم پر پابندی لگائی تو ہم نے اسے لاہور پائی کورٹ میں چیلنج کردیا اور عدالت نے ہمارے فلاحی کاموں کو دیکھتے ہوئے پابندی کے خلاف فیصلہ دیا'۔

سیف نے بتایا کہ 'اسلام کوٹ کے علاقے میں ایک کنواں تعمیر کرنے پر تقریباً ایک لاکھ پچاسی ہزار روپے لاگت آتی ہے، جبکہ چھاچھڑو کے علاقے میں کنواں تعمیرکرتے وقت یہ لاگت مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ زیرِ زمین پانی تقریباً 275 سے 300 فٹ نیچے موجود ہے'۔

'چھاچھڑو میں کنویں کھودنے کے لیے مزدور پیسے بھی زیادہ مانگتے ہیں کیوں کہ اس کام میں بہت زیادہ مشقت درکار ہوتی ہے اور ایک زیرِ تعمیر کنویں کے اندر ایک مزدور مخصوص وقت سے زیادہ دیر کام نہیں کر سکتا، کیوں کہ اس کے بعد دَم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور سانس لینے والے آلات استعمال کرنے پڑتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سیمنٹ کی بوریاں بھی زیادہ استعمال ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے یہاں مجموعی لاگت تین لاکھ تک ہو جاتی ہے'۔

واضح رہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا صحرائے تھر گزشتہ تین سالوں سے متواتر قحط سالی کا شکار ہے۔

اس قحط سالی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب سردیوں کے آغاز کے ساتھ غذائی قلت کا شکار بچوں اور ماں بننے والی خواتین کے لیے زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی جو غربت کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کی بنیادی ضروریات اور تعلیم کی کمی کا بھی شکار ہیں۔


مزید پڑھیں: تھر کے قحط زدہ لوگ خودکشیاں کرنے لگے


سیف کا کہنا تھا کہ 'فلاح انسانیت ان کنوؤں کی تعمیر کے لیے ضرورت پڑنے پر فنڈز بھی اکٹھے کرتی ہے، حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کیکاری گاؤں میں ایسے تیس کنویں تعمیر کرنے کے لیے عطیات دیئے ہیں، جو اب مکمل طور پر کام کر رہے ہیں'۔

'بہت سے درد مند لوگ بھی اس کام کے لیے پیسہ فراہم کرتے ہیں اور ہم ایک ایک روپے کو انتہائی شفاف انداز میں استعمال کرتے ہیں'۔

صحرائے تھر کی تقریباً پچاس فیصد آبادی ہندو ہے، جو ہندوؤں کی نچلی ذات جیسے کولہی، بھیل اورمیگھواڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔

سیف کا کہنا تھا کہ 'ان کی تنظیم کا مقصد ہے کہ پانی سے متعلق پچاس فیصد پروجیکٹس سے تھر کی غیر مسلم آبادی مستفید ہو'۔

انھوں نے بتایا کہ فلاح انسانیت کی جانب سے لاہور میں ایک ڈسپنسر کورس کا بھی اہتمام کیا گیا ، جس میں ڈپلو، اسلام کوٹ اور چھاچھڑو سے تعلق رکھنے والے پندرہ تھری لڑکوں نے شرکت کی۔

سیف کا کہنا تھا کہ 'یہ لڑکے ہماری تنظیم کی جانب سے ہر چالیس سے پچاس کلو میٹر کی حدود میں قائم کی جانے والی ڈسپنسریوں کی دیکھ بھال کریں گے۔ اس طرح یہاں کے لوگوں کو ممکنہ قریبی مقامات پر کچھ حد تک طبی امداد دی جا سکے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ' ہماری تنظیم حیدرآباد میں ایک ہیڈ آفس قائم کرے گی تاکہ پورے سندھ میں کیے جانے والے سماجی اور ریلیف کے کاموں کی نگرانی کی جا سکے ، جبکہ بلوچستان میں بھی ایک بڑا آفس قائم کیا جائے گا جہاں آواران میں آنے والے زلزلے کے بعد فلاح انسانیت کی جانب سے بڑے پیمانے پر امدادی کام کیے گئے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم تھر میں گزشتہ ایک عشرے سے میڈیکل کیپمس لگا رہے ہیں اور ہر شعبے کے ماہر ڈاکٹر یہاں بارہ سے تیرہ ہزار لوگوں کو طبی امداد فراہم کرتے ہیں'۔

سیف، جو اپنے دورۂ تھر کے بعد لاہور جائیں گے، وہاں سے فلاح اانسانیت کے زیرِ انتظام چلنے والی دو ایمبولینسوں کے ساتھ واپس آئیں گے۔


مزید پڑھیں: تھر کا قحط اور وقتی ہمدردیوں کا شور


ان کے مطابق یہاں روڈ نیٹ ورک قائم ہونا باقی ہے، اگر چہ موجود حکومت بھی دعویٰ کرچکی ہے کہ وہ تھر میں سڑکوں کا نظام بہتر بنارہی ہے۔

یہاں کے لوگ زیادہ تر ٹرکوں میں سفر کرتے ہیں تاہم اب یہاِں جیپوں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔

سیف نے مزید بتایا کہ 'ہم مٹھی میں ایک کمیونیکیشن سینٹر بنارہے ہیں جبکہ ایمبولینسوں کے ذریعے مریضوں کو بغیر کسی فیس کے دوردراز دیہاتوں سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوراٹر، حیدرآباد یا پھر کراچی لے جایا سکے گا'۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد Nov 21, 2014 08:48pm
اسلام علیکم ہمیں تھر میں واٹر پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے حسب استعطاعت فنڈز fif کو فراہم کرنے چاہیے