سانحہ پشاور:مذمت نہ کرنے پر مولانا عبدالعزیز کے خلاف مظاہرہ

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2014
جمعرات کو لال مسجد کے باہر مظاہرین احتجاجی کارڈز جبکہ دو خواتین موم بتیاں جلائے کھڑی ہیں—۔فوٹو/ تنویر شہزاد
جمعرات کو لال مسجد کے باہر مظاہرین احتجاجی کارڈز جبکہ دو خواتین موم بتیاں جلائے کھڑی ہیں—۔فوٹو/ تنویر شہزاد
پولیس کی بھاری نفری لال مسجد کے باہر تعینات ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب
پولیس کی بھاری نفری لال مسجد کے باہر تعینات ہے—۔ڈان نیوز اسکرین گریب

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں قائم لال مسجد کے باہر جمعے کو سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر کشیدگی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جبکہ پولیس کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق آج خواتین سمیت سول سوسائٹی کے متعدد اراکین کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا۔

سول سوسائٹی کے مظاہرے کا مقصد لال مسجد کے مہتمم اعلیٰ مولانا عبدالعزیز کے اس بیان کے خلاف احتجاج ہے، جس میں انھوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے قتل عام کی مذمت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

اس سے قبل سول سوسائٹی کی جانب سے اس احتجاج کا اعلان سماجی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر پرکیا گیا اوراحتجاج کے حامیوں نے LalMasjidVigil# اورArrestAbdulAziz# کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنے غم وغصے کا اظہار کیا۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز عصمت اللہ جونیجو نے سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہرے اور احتجاج کے اعلان کے بعد پوری ڈسٹرکٹ پولیس کو نمازِ جمعہ کے بعد لال مسجد کے باہرتعینات کرنے کے احکامات جاری کیے۔

ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔

اس سے قبل لال مسجد انتظامیہ کو اُس وقت ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب جمعرات کی شام بڑی تعداد میں سول سوسائٹی کے اراکین، سماجی کارکن، سیاستدان اور طلبہ مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور انھوں نے مسجد کے مہتمم اعلیٰ مولانا عبدالعزیز کے خلاف نعرے بازی شروع کردی جبکہ احتجاجاً شمعیں بھی روشن کی گئیں۔

جمعرات کی شام تقریباً 6 بجے کے قریب لوگ مسجد کے باہر جمع ہونا شروع ہوئے اور انھوں نے سڑک کنارے موم بتیاں جلائیں۔ مظاہرین ہاتھوں میں پشاور سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے ناموں کے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جبکہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف نعرے بازی بھی کی جارہی تھی۔

جس کے بعد انتظامیہ کا ایک فرد باہر آیا اور اس نے مظاہرین کو خبردار کیا کہ مزید نعرے بازی برداشت نہیں کی جائے گی، جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچ گئی اور مظاہرین سے منتشر ہونے کے لیے کہا۔

ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ لال مسجد کا علاقہ انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے جبکہ احتجاج کی منصوبہ بندی کی اطلاعات ملنے پر پولیس کو تصادم کا خدشہ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ پولیس کی جانب سے مسجد کے سامنے کی سڑک بند کر کے بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔

مذکورہ افسر کے مطابق 'ہم نے احتجاج کے آرگنائزر کو تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ اس سے احتجاج کو منسوخ کرنے کا کہا جا سکے تاہم ہم اسے تلاش نہیں کرسکے اور مقررہ وقت پر لوگ پہنچنا شروع ہو گئے، جس پر ہم نے مسجد میں پولیس تعینات کردی'۔

احتجاج کے آرگنائزرجبران ناصر نے ڈان کو بتایا کہ وہ کراچی کا رہائشی ہے اور اس وقت اسلام آباد میں تھا، جب اس نے مولانا عبدالعزیز کا بیان سنا، جس کے بعد اس نے موم بتیاں روشن کر کے احتجاج کا منصوبہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے معلوم ہوا کہ پولیس مجھے تلاش کر رہی ہے اور احتجاج کے بعد مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی۔ لال مسجد سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافرز نے میری تصاویر بھی لیں تاہم میں کل دوبارہ اسی مقام پر موم بتیاں جلانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں'۔

جبران کا کہنا تھا کہ وہ اگلے پورے ہفتے تک یہاں موم بتیاں روشن کرے گا جب کہ اس کے بعد ہر جمعرات کو یہ عمل دہرایا جائے گا۔

سول سوسائٹی کے ایک رکن احمد علی نے ڈان کو بتایا کہ 'مولانا عبدالعزیز نے سانحہ پشاور کی مذمت نہ کرتے ہوئے جان کی بازی ہارنے والے بچوں کو شہید کہنے سے انکار کیا۔ یہ وہ مسجد تھی، جہاں سے یہ بیان سانے آیا، لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یہاں موم بتیان روشن کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہلاک ہونے والے افراد کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا بھی پلان بنایا گیا لیکن کوئی مولانا صاحب اس کے لیے راضی نہیں ہوئے۔ لوگ لال مسجد انتظامیہ کی جانب سے خوفزدہ ہیں'۔

احتجاج میں شریک سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ احتجاج سانحہ پشاور میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے یکجہتی کااظہار ہے، جس کا ایک مقصد مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف آواز اٹھانا بھی ہے'۔

رات گئے ہونےوالے اس واقعے کا مقدمہ اسلام آباد پولیس نے لال مسجد انتظامیہ کی مدعیت میں احتجاج میں شریک افراد کے خلاف درج کرلیا۔

آبپارہ پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) عبد الرحمان نے تصدیق کی کہ احتجاج میں شریک مظاہرین کے خلاف دفعہ 144، سڑک کی بندش اور مسجد کی انتظامیہ کے خلاف نفرت آمیز زبان استعمال کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔

جب احمد علی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ایف آئی آر کے اندراج سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'لال مسجد انتظامیہ بہت طاقتور ہے اورسول سوسائٹی کے اس احتجاج کو برداشت نہیں کرے گی'۔

تبصرے (1) بند ہیں

jami Dec 19, 2014 06:35pm
yeh shaitan molvie hy fitna hy