آئندہ دنوں میں مزید 500 دہشتگردوں کو پھانسی دینگے، نثار

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2014
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خظاب کر رہے ہیں ۔ فوٹو اے پی پی
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خظاب کر رہے ہیں ۔ فوٹو اے پی پی

اسلام آباد : پاکستان کے وزیرداخلہ چوہدری نثار نے چاروں صوبوں کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں حساس علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں اور اس یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک افواج جنگ میں مصروف ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج مکمل طور پر اسلامی ہے اور اس نے کبھی بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا۔

’پاک فوج نقصانات جھیلنے کے باوجود اسلامی اصولوں کی پابندی کر رہی ہے لیکن دوسری طرف کسی قسم کے اصول و ضوابط نہیں‘۔

چوہدری نثار نے کہا کہ پاک فوج کی کارروائیوں کی ایک حدود متعین ہے اور شمالی وزیرستان میں فوج نے اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ 'اگر ان شہریوں کا خیال نہ ہوتا تو پورا میرانشاء تباہ کردیا جاتا'۔

اس موقع پر انہوں نے انکشاف کیا کہ آنے والے دنوں میں سزائے موت کے منتظر دہشت گردی کے جرائم میں ملوث 500 قیدیوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا۔

وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ سزائے موت پر سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ سانحہ پشاور سے ڈھائی ہفتہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا۔

چوہدری نثار کے مطابق ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے اور قیدیوں کی اہلخانہ ملاقات کے عمل میں عام طور پر ڈھائی ہفتے لگ جاتے ہیں لیکن پشاور سانحے کے بعد جب وزیر اعظم پشاور گئے تو انہوں نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی درخواست پر یہ دورانیہ مختصر کردیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ نے تحریک طالبان پاکستان کے اس دعوے کو بھی یکسر رد کیا کہ پشاور میں دہشت گردوں نے بچوں کو اس لیے قتل کیا کیونکہ ماضی میں اُن کے بچوں کو قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت قوم کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی اور مشکوک لوگوں اور کاموں پر نظر رکھنی پڑے گی۔

نثار نے کہا کہ جلد ایک نمبر جاری کیا جائے گا جس پر لوگ اپنے ارد گرد ہونے والی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع کر سکیں گے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ دشمن کے ہمدرد اور مددگار ہمارے درمیان موجود ہے، یہ سرحد پر لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے کیونکہ دشمن ہمارے درمیان موجود ہے۔

'مدرسوں پر بلاجواز تنقید نہ کریں'

انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود مدرسوں پر آنکھیں بند کرکے تنقید نہ کریں کیونکہ 90 فیصد مدرسے دہشت گرد کارروئیوں اور دہشت گردوں سے دور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مدارس ملک کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں تاہم صرف 10 فیصد مدارس ایسے ہیں جن کے دہشت گردوں سے روابط ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے جو کہ کی بھی جا رہی ہے۔

انہوں نے اس موقع پر مولانا تقی عثمانی، مولانا سمیع الحق سمیت دیگر علماء کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پشاور واقعے کو دہشت گردی قرار دیا اور دہشت گردوں کی مذمت بھی کی۔

وزیرداخلہ نے ہوٹلوں کے مالکان اور موبائل فون کمپنیز کو بھی متنبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور پیسوں کی خاطر ملکی سیکیورٹی پر سمجھوتا نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گردی کسی ہوٹل سے پکڑا گیا تو اس ہوٹل کے مالک اور کسی دہشت گرد کے پاس سے سم برآمد ہوئی تو موبائل کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔

’دہشت گرد پاکستانی ہیں'

انہوں نے کہا کہ پشاور سکول حملے میں ملوث تمام دہشت گردوں کی ابھی شناخت نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن دہشت گردوں کی شناخت ہو گئی ہے وہ سب پاکستانی ہیں۔

'افغانستان سے یقین دہانی کرائی ہے'

وزیرداخلہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں کافی غلط فہمیں موجود تھیں مگر نئی افغان قیادت نے آنے کے بعد سے کافی بہتریاں آئیں ہیں اور انٹیلیجنس شیئرنگ کا عمل بڑھانے پر مثبت بات چیت ہوئی ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Nadeem Dec 21, 2014 09:04pm
بڑی سخت مایوسی ہوئی ہئ نثار صاحب کے بیان پر. مدرسے اچھے ہیں یا برے سب رجسٹر ہونے چاہئیں اور وہاں کے عملے اور طالب علموں کی رجسٹریشن ہونی چاہیے بشمول فنگر پرنٹس.
Naveed Jafri Dec 21, 2014 10:30pm
It seems Chaudhry Nisar is living in the state of denial. Most of this filth of terrorism is being fed and spread by Madressas
Raees Dec 21, 2014 10:31pm
No ministry of education at national level so no nationalism that's why private institutions are teaching what they want whether in schools or madrasas- It is Dama Dam Mast Qalander with future of Pakistan.