پکوان کہانی: چائے کی ٹرالی کا بادشاہ

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2015
شامی کباب — فوٹو فواد احمد
شامی کباب — فوٹو فواد احمد

شامی کباب پاکستان میں چائے کی ٹرالی کا شہنشاہ ہے، چاہے یہ عید کا موقع ہو یا کسی دوست کی آمد، یہ لذیذ سوغات ہمیشہ ہی گرما گرم لوازمہ ثابت ہوتی ہے۔

گرم مسالے، سرخ مرچ اور سبز مرچوں کے ساتھ یہ کباب نہ صرف چائے کا مزہ دوبالا کرتے ہیں بلکہ گفتگو کی چاشنی بھی بڑھ جاتی ہے۔ مجھے شامی کباب کے دل جیت لینے والے ذائقے کے بارے میں جو پہلی چیز یاد ہے وہ کباب بننے سے پہلے ہی قیمہ کھانا ہے۔ شامی کباب کا یہی مزہ اور ہمہ گیری ہے کہ بلینڈر میں قیمہ چلانے اور تلنے سے پہلے بھی اس کا ذائقہ انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔

کھانوں کی تاریخ دان لزی کولنگھم اپنی کتاب کری میں شامی کباب کے بارے میں تفصیل سے لکھتی ہیں:

"نواب آصف الدولہ کی پکوانوں سے محبت کو شامی کباب کی ایجاد کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ یہ لکھنؤ کے کبابوں کی اقسام میں سے ایک ہے، مغل شہنشاہ اگر احتیاط سے یا کم کھاتے تھے تو اودھ کے نواب پیٹ بھر کر کھاتے تھے۔

"درحقیقت آصف الدولہ اتنے موٹے ہوگئے تھے کہ گھوڑے پر بھی سوار نہیں ہوپاتے تھے۔ انہوں نے اپنا وزن بہت زیادہ بڑھا لیا تھا حالانکہ وہ دانتوں کو کھونے کے بعد چبانے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے تھے۔ شامی کباب کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ ان کی تخلیق چبانے کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہی ہوئی۔ انہیں انتہائی باریکی سے پسے اور کٹے ہوئے گوشت کو پیس کر تیار کیا جانے لگا۔ مغرب میں قیمے کو عام طور پر نچلے درجے کے کھانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا تاہم مغلوں گوشت کے بہترین حصوں کا قیمہ بنواتے تھے۔ اکبر کے درباری ابو الفضل نے بار بار کھانوں کی تراکیب، بشمول پلاؤ، کے اجزا میں قیمے کا ذکر کیا ہے۔

"مغل گائے کا قیمہ پسند کرتے تھے مگر لکھنؤ میں باورچی بھیڑ کے گوشت کو ترجیح دیتے تھے جس سے بننے والا قیمہ زیادہ نرم ہوتا ہے۔ وہ گوشت کو پیس کر باریک پیسٹ بنا دیتے تھے اور پھر اس میں ادرک لہسن، خشخاش اور متعدد مصالحوں کو شامل کرکے انہیں گیند کی شکل دے دیتے تھے، پھر انہیں سیخ میں پرو دیا جاتا اور آگ کے اوپر بھونا جاتا۔ اس کے نتیجے میں کباب باہر سے تو زیادہ خستہ ہوتے مگر اندر سے اتنے نرم اور ریشمی ہوتے کہ دانتوں سے محروم آصف الدولہ بھی انہیں مزے لے کر کھا پاتے۔"

ریشمی شامی کباب کسی بھی کھانے کا پرمزہ پہلو ہوتے ہیں مگر ان کا مزہ گرما گرم نان، پیاز اور پودینے کی چٹنی کے ساتھ دوبالا ہو جتا ہے۔ لکھنؤ کے نانبائی بہترین شامی کبابوں کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے اور اب برصغیر، خاص طور پر کراچی میں ریڑھی پر بن کبابوں کی فروخت اسی روایت کا تسلسل ہے۔

مجھے سب سے لذیذ بن کباب ابھی بھی واضح طور پر یاد ہیں جو میں ستر اور اسی کی دہائی میں کراچی کے علاقے نرسری میں واقع خیام سینما کے باہر ریڑھی سے لے کر کھایا کرتی تھی اور میں اب بھی سوچتی ہوں کہ کیا اب بھی وہ ریڑھی وہاں موجود ہو گی؟

میری تحقیق بتاتی ہے کہ سب سے پہلے کباب فوجیوں نے تیار کیے تھے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ترک اور فارسی فوجی اپنی تلواروں پر لگے تازہ گوشت کو آگ پر بھون کر اس کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ گوشت جانور کی چربی کے ساتھ پکتا تھا اور فوجی اسے مختلف ممالک کی سرزمینوں میں جنگوں کے دوران زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے۔

لفظ کباب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس کی بنیاد عربی زبان میں چھپی ہے مگر فارسی، ترک اور وسطیٰ ایشیائی زبانیں بھی یہ دعویٰ کرتی ہیں۔ اس کا مطلب الاﺅ پر سیخوں میں تلنا، بھوننا یا پکانا ہے۔

کبابوں کو ہمیشہ سے ہی کوئلوں پر بھونا جاتا ہے یا اسے ڈیپ فرائی کے بجائے کم تیل میں تلا جاتا ہے۔ مغرب میں اکثر کبابوں کو سیخوں میں پیش کیا جاتا ہے یا ڈونر کباب کی طرح مشرقی وسطیٰ کی پیٹا بریڈ میں پیش کیا جاتا ہے۔

برصغیر میں کبابوں کو بنانے کے حوالے سے ایک درجن سے زائد مقبول طریقہ کار موجود ہیں جیسے چپلی کباب، بوٹی، سیخ، بہاری، گلاوٹی مگر ان میں سے کوئی بھی شامی کباب جیسا منفرد نہیں۔

معروف شیف اور مصنف سنجے ٹھما اپنے مضمون 'شامی کباب' میں لکھتے ہیں

"شامی کباب کا عربی میں نام سیرئین کباب ہیں (سیئریا کو اردو اور ہندی میں شام لکھا اور کہا جاتا ہے)۔ مغل عہد میں مشرقی وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسلم تارکین وطن نے ان کبابوں کو جنوبی ایشیاء میں متعارف کرایا۔ مغلوں کے پاس شاہی باورچی خانے میں پوری مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والے باورچی بطور ملازمین کام کررہے تھے اور ان میں کچھ کا تعلق شام سے تھا۔

"ایک اور ذریعے کا کہنا ہے کہ انگریزی لفظ ایوننگ کو اردو اور ہندی میں شام کہا جاتا ہے اور شامِ اودھ (لکھنئو کی شامیں) وہاں کے نوابوں کے دور میں ناقابلِ فراموش ہوا کرتی تھیں، اور یہی شامی کباب کے نام کی بنیاد ہے۔ مگر کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ شامی کباب کی جڑیں پنجاب کے ضلع ہوشیارپور کے معروف گاﺅں شام چوراسی میں ہیں۔ لکھنئو لذت دہن، رنگین شاموں اور فنون لطیفہ سے محبت کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ یہاں کے باورچی خانے اور باورچی و رکابدار شاہی درباروں میں جانے جاتے تھے۔ لکھنوی کھانوں کی ورائٹی اور اجزاء کا اظہار شامی کباب کے چٹخارے دار ذائقے سے بخوبی ہوجاتا ہے۔"

شامی کباب کی جو ترکیب میں شیئر کرنے والی ہوں، یہ میری پیاری امی کی ہے، وہی جسے میں بچپن میں چپکے سے کھایا کرتی تھی۔ ہرا مصالحہ کباب کی ترکیب میری نانی کی خاصیت تھی۔ ہرا مصالحہ کباب (ہری مرچ کے بغیر) بچوں کے برگر کے لیے مثالی جز ہے اور میرے بچے اپنے برگر میں انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔

اب یہ میرے باورچی خانے سے آپ کے کچن کا رخ کررہی ہے۔

شامی کباب


اجزا

ایک کلو گائے کا پیسا ہوا گوشت

ڈیڑھ کپ چنے کی دال

ڈیڑھ پیاز بڑی

ادرک کا ایک انچ کا ٹکڑا

لہسن کے دس دانے

بارہ ثابت سرخ مرچیں

ایک چائے کا چمچ زیرہ

دو چائے کے چمچ دھنیہ پاﺅڈر

دو دارچینی اسٹکس

تین کالی الائچیاں

بیس ثابت کالی مرچیں

سات سے آٹھ لونگیں

نمک حسب ذائقہ

چوبیس سے تیس اونس پانی

طریقہ کار

اوپر دیئے گئے تمام اجزاء پانی سے بھرے برتن میں ڈال دیں اور اس وقت تک پکائیں جب تک پانی مکمل طور پر خشک نہ ہوجائے اور دال کو بھی نرم ہونے تک پکائیں۔

انہیں ٹھنڈا کریں اور ہھر اسے پیس لیں۔

اب ایک باریک کٹی ہوئی پیاز، دو انڈے، پودینے کے پتوں کی تازہ گڈی (کٹے ہوئے) اور دس سے بارہ دھینے کے پتے (کٹے ہوئے) کو ان میں شامل کریں اور انہیں قیمے کے مکسچر میں اچھی طرح ملائیں اور پھر انہیں کباب کی شکل دیں اور کم تیل میں تلیں۔

ہرا مصالحہ کباب


اجزا

نو سو گرام قیمہ

وائٹ بریڈ کے آٹھ سلائیس، (پانی میں بھگو کرنچوڑ لیں)

چار چائے کے چمچ کارن فلور

دو درمیانی سائز پیاز باریک کٹی ہوئی

ادرک کا دو انچ کا ٹکڑا

دو انڈے

دو چائے کا چمچ کالی مرچ کا پاﺅڈر

ایک گڈی پودینہ (کٹی ہوئی)

نمک حسب ذائقہ

چار سے چھ سبز مرچیں (اچھی طرح کٹی ہوئی)

طریقہ کار

تمام اجزاء کو مکس کریں اور کباب کی شکل دے کر کم تیل میں تلیں۔


— تصاویر فواد احمد

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں