پشاور: امام بارگاہ پر حملہ، ہلاکتیں 22 ہوگئیں

اپ ڈیٹ 14 فروری 2015
۔—اے ایف پی فوٹو۔
۔—اے ایف پی فوٹو۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔

پشاور: خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے حیات آباد فیز5 میں امامیہ مسجد و امام بارگاہ میں ہونے والے خودکش دھماکے اور گرنیڈ حملے کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق حیات آباد فیز5 میں واقع امامیہ مسجد و امام بارگاہ میں نماز جمعہ کے دوران یکے بعد دیگر متعدد دھماکے ہوئے۔

دھماکوں کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جنھیں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کردیا گیا، جہاں متعدد کی حالت نازک بتائی گئی، جبکہ پشاور کے تمام ہسپتالوں میں گزشتہ روز ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں جگہ کم پڑنے کے باعث زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے بذریعہ ای میل حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔

اس سے قبل ڈان نیوز سے گفتگو میں صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے 19 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی تھی۔

مشتاق غنی نے مزید کہا کہ ضرورت پڑنے پر زخمیوں کو دوسرے اسپتالوں منتقل کیا جا سکتا ہے، جبکہ پشاور کے تمام اسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں زخمیوں کو مکمل طبی امداد دی جارہی ہے۔

مشتاق غنی نے کہا کہ چونکہ پشاور قبائلی علاقوں سے قریب ہے، لہذا دہشت گرد با آسانی یہاں داخل ہو سکتے ہیں۔

صوبائی وزیر اطلاعات نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ صوبے میں ایف سی کو واپس بھیجا جائے۔

عینی شاہدین کے مطابق جمعے کی نماز کا آخری سجدہ ادا کیا جا رہا تھا کہ فرنٹیئرکور(ایف سی) کے یونیفارم میں ملبوس 6 مسلح افراد نے مسجد کے باہر موجود سیکیورٹی کو ختم کرنے کے لیے پہلے 8 گرنیڈز پھینکے اور بعد میں مسجد کے اند آکرخود کش دھماکے کیے۔

دھماکے کے بعد علاقے میں شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔

پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے جس میں پاک فوج کا دستہ بھی حصہ لے رہا ہے۔

جبکہ ریسکیو ٹیمیں بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔

پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز میاں محمد سعید کے مطابق دھماکے مسجد کے اندر ہوئے۔ حملہ آوروں کی تعداد 3 تھی جن میں سے ایک کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا جبکہ ایک حملہ آور کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا مگر وہ زخموں کے باعث ہلاک ہو گیا البتہ ایک حملہ آور کسی جگہ چھپ گیا۔

ابتدائی تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ زخمی ہونے والے دہشت گرد پر سیکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کی تھی۔

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق حملہ آور سفید رنگ کی کرولہ نمبر ایل ای ای 1632 میں سوار ہوکر آئے اور سب سے پہلے انھوں نے گاڑی کو آگ لگائی، تاہم گاڑی کی نمبر پلیٹ مکمل طور پر جلنے سے بچ گئی۔

نمائندے کے مطاق مذکورہ گاڑی لاہور سے رجسٹرڈ ہے اور سیکیورٹی اداروں نے اس کا ڈیٹا حاصل کرکے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

ڈان نیوز اسکرین گریب—۔
ڈان نیوز اسکرین گریب—۔

آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کرائم ٹیمیں اس واقعے کی مختلف حوالوں سے تفتیش کررہی ہیں، جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ بھی اندر موجود ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مسجد کے مرکزی دروازے پر سیکیورٹی کے اچھے خاصے انتظامات تھے اور یہاں سے داخل ہونا ممکن نہیں تھا، البتہ مسجد سے ملحق ایک زیر تعمیرعمارت پر کچھ نشانات ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حملہ آور وہاں سے مسجد میں داخل ہوئے۔

ناصر درانی کے مطابق ایک خودکش حملہ آور نے مسجد سے ملحق عمارت کی گیلری میں خود کش دھماکا کیا، تاکہ باقی حملہ آور اندر داخل ہوسکیں، اس سلسلے میں خاردار تار کو بھی کاٹا گیا۔

دوسرے حملہ آور نے مسجد کے صحن میں خود کش حملہ کیا، جس کی لاش صحن میں موجود ہے جبکہ ایک حملہ آور کی لاش مسجد کے ہال سے ملی۔

ناصر درانی نے نمازیوں کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ایک حملہ آور کو نمازیوں نے پکڑ لیا، جس کی وجہ سے وہ خود کش دھماکا نہیں کر سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد جس گاڑی میں آئے تھے پہلے انہوں نے گاڑی کو آگ لگائی اور پھر مسجد میں داخل ہوئے۔

سیکیورٹی کے ناکافی انتظامات کے حوالے سے آئی جی کا کہنا تھا کہ ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے اور تفتیش کے بعد ہی اس حوالے سے کچھ کہا جاسکے گا۔

مسجد کے باہر بعض افراد کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ حملہ آوروں سے چھینا گیا ہے۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اے آئی جی ملک شفقت کے مطابق امامیہ مسجد پر 4 دہشت گردوں نے حملہ کیا، جن میں سے تین خودکش بمباروں نے خود کو اڑا لیا جبکہ ایک فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ایک دہشت گرد کی خودکش جیکٹ کو ناکارہ بنادیا گیا ہے۔

شیعہ علماء کونسل کے رہنما عارف حسین نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کو پکڑنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جارہی۔

دوسری جانب امامیہ مسجد خود کش حملے کے خلاف متحدہ وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم)، شیعہ علماء کونسل، جعفریہ الائنس اور امامیہ رابطہ کونسل نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کردیا ہے۔

پشاور میں ہونے والے حملے پر صدر ممنون حسین، وزیر اعظم نواز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین اور دیگر رہنماؤں نے مذمت کی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما میاں افتخار حسین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پالیسی بدلے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں سندھ کے ضلع شکارپور کی ایک امام بارگاہ میں بھی نمازِ جمعہ کے دوران بم دھماکا ہوا تھا ، جس کے نتیجے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: شکارپور دھماکےمیں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہو گئی

کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہونے والے ایک گروپ جند للہ نے شکار پوردھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔

جبکہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملے میں 132 سے زائد بچوں سمیت 141 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں:پشاور اسکول حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد ہلاک

اس حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوئی اور اس سلسلے میں متعدد اقدامات کیے گئے، اسی طرح خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت پر پابندی کا خاتمہ اور فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل آیا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Saajid Kamal Feb 13, 2015 08:18pm
اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ اعتقادی، فکری یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال یا مقدس مقامات پر حملے کرنا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اﷲ کے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور وہاں لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ۔ مسجدوں میں خوف و ہراس کے ذریعے اﷲ کے ذکر سے روکنے اور انہیں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ویران کرنے والوں کو قرآن نے نہ صرف سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے، بلکہ انہیں دنیا و آخرت میں ذلت آمیز عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ در حقیقت، دہشتگرد طالبان اسلام اور ملک کے دشمن ہی نہیں بلکہ مسلمان کہلانے کے حقداربھی نہیں ہیں۔
Gharib Feb 14, 2015 04:16am
Taliban ne is hamla ki zimmedari sar par le kar saare dunya ko yeh bataya hain ke un ko insaniyat aur Islam se koi dilchaspi nahin balke un ki ek dehshatgard ko phansi main latkane ke lye yeh un ki intaqaam hai. Jahan se mujhe pata hai, Islam main inteqaam ke lye koi jagah nahin hai aur woh bhee intaqaam lena un awaam se jis ko Dr. Usman ki phansi se koi lena dena nahin hai. Yeh bechare aaye thein namaz padhne, Allah ko yaad karne, apni farz pora karne aur Taliban ne un ko yeh sub karne bhee nahin diya. Bade aaye apne aap ko Musalman kehlane wale. Wehshee log.