'شفقت نابالغ نہیں تھا'

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2015
اس رپورٹ کے بعد شفقت کے خاندان اور دفاعی ٹیم کے اُس موقف کو دھچکا لگا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فرد جرم ثابت کیے جانے کے وقت شفقت حسین نابالغ تھا—۔فوٹو/ ابرار حیدر
اس رپورٹ کے بعد شفقت کے خاندان اور دفاعی ٹیم کے اُس موقف کو دھچکا لگا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فرد جرم ثابت کیے جانے کے وقت شفقت حسین نابالغ تھا—۔فوٹو/ ابرار حیدر

اسلام آباد: کراچی میں ایک بچے کے اغوا اور قتل کے جرم میں موت کی سزا پانے والے شفقت حسین کی سزا کے وقت عمر کا تعین کرنے والی انکوائری کمیٹی نے فیصلہ سنایا ہے کہ فرد جرم عائد کیے جانے کے وقت شفقت کی عمر 23 برس تھی۔

رپورٹ کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر گلفام ناصر وڑائچ کی سربراہی میں فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی 3 رکنی انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ ریکارڈ ( جس میں گرفتاری کے وقت کی تصاویر شامل ہیں) کے مطابق شفقت حسین اپنی گرفتاری کےوقت 23 برس کا تھا۔

اس رپورٹ کے بعد شفقت کے خاندان اور دفاعی ٹیم کے اُس موقف کو دھچکا لگا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فرد جرم ثابت کیے جانے کے وقت شفقت حسین نابالغ تھا۔

رپورٹ کے مطابق یہ انکوائری شفقت کی عمر کا تعین کرنے کے لیے نہیں کی گئی بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ جرم کے وقت شفقت حسین کے نابالغ ہونے کا دعویٰ درست ہے یا نہیں ، جیسا کہ کیس کے ریکارڈ میں ظاہر کیا گیا ہے۔

دوسرا انکوائری کا مقصد یہ بھی تھا کہ شفقت کی عمر کے معاملے کو قانونی اور اصولی طور پر اس موقع پر اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں۔

اس حوالے سے انکوائری ٹیم نے کراچی کا دورہ کیا اور کیس سے متعلق پولیس، جیل، قانونی اور عدالت ریکارڈ کا معائنہ کیا۔

ٹیم نے شفقت کے وکیل منصور الحق سولنگی سے بھی ملاقات کی، جنھوں نے مختلف ٹرائل کورٹس میں شفقت کی پیروی کی، جبکہ انھوں نے مجرم کے آبائی گاؤں جاکر اُس کے والدین اور اساتذہ سے بھی بات چیت کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیس سے متعلق تمام دستاویزات مثلاً : حلیہ فارم، کرمنل ریکارڈ آفس، جیل انتظامیہ کے رجسٹر اور اوریجنل ہسٹری ٹکٹس میں شفقت کی عمر 23 سال ریکارڈ کی گئی ہے۔

جبکہ دس سال تک مقدمے کی پیروی کے دوران اس رپورٹ کو کسی بھی فورم پر چیلنج نہیں کیا گیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ انکوائری کمیٹی نے شفقت کی موجودہ ڈیفنس ٹیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کو بار بار شواہد اور ثبوت پیش کرنے کی دعوت دی لیکن جسٹس ٹیم یہ کہہ کر معاملے سے دور رہی کہ انھوں نے جو شواہد پیش کرنے تھے وہ پہلے ہی دیئے جاچکے ہیں۔

تاہم جے پی پی کا کہنا تھا کہ انھوں نے انکوائری کمیٹی سے تعاون کیا اور اسے 8 دستاویزات فراہم کیں، جن میں شفقت کو نابالغ ثابت کرنے کا ثبوت، اُس کے والد، والدہ اور خاندان کے دیگر افراد کے شناختی کارڈ وغیرہ شامل ہیں۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دسمبر میں لیگل ٹیم کو حاصل ہونے والا برتھ سرٹیفیکیٹ، جس کے مطابق شفقت کی عمر 14 برس تھی، منسوخ کردیا گیا ہے۔

لیگل ٹیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے اُس پرائمری اسکول کے شواہد کو نظر انداز کردیا جہاں شفقت نے تعلیم حاصل کی۔

ٹیم کا کہنا تھا کہ اسکول کے انرولمنٹ رجسٹر کے مطابق شفقت 1986 میں پیدا ہوا اور فردِ جرم عائد ہونے کے وقت وہ نا بالغ تھا۔ ٹیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہی وہ ثبوت تھا جس کی بناء پر گزشتہ برس جاری کیا گیا برتھ سرٹیفیکیٹ جعلی قرار دے کر منسوخ کیا گیا۔

جے پی پی نے اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی، جس میں ایف آئی اے کی جانب سے ان کے موکل کی عمر کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

مذکورہ درخواست کی سماعت کے دوران گزشتہ جمعے کو جسٹس اطہر من اللہ نے صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، ایف آئی اے ، جیل انتظامیہ اور دیگر پارٹیوں کو 15 دن کے نوٹسز بھی جاری کیے تھے۔

جب اس حوالے سے ڈان نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ رپورٹ تیار کرکے صدر، وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل کو بھیجی جا چکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں