بس حملے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع

اپ ڈیٹ 15 مئ 2015
سادہ لباس میں ایک پولیس اہلکار بس حملے کی جائے وقوعہ پر سے ملنے والے شواہد اُٹھائے ہوئے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
سادہ لباس میں ایک پولیس اہلکار بس حملے کی جائے وقوعہ پر سے ملنے والے شواہد اُٹھائے ہوئے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

کراچی: پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے شیعہ اسماعیلیوں کی بس پر سفاکانہ حملے کی تحقیقات کے دائرے کو وسیع کردیا ہے، جبکہ سندھ رینجرز نے شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران 145 مشتبہ افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔

پیراملٹری فورس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سہراب گوٹھ، گلشن اقبال، اورنگی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں یہ چھاپے مارے گئے، اور مبینہ ٹارگٹ کلرز اور کالعدم تنظیموں کے اراکین کو پکڑلیا گیا ہے۔

رینجرز کے بیان میں زیرِحراست ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

کل بس حملے میں زخمی ہونے والے دو افراد اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے، جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 45 ہوگئی۔

اسی دوران پولیس کے تفتیش کاروں نے دو نئے عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے، اور ان مشتبہ عسکریت پسندوں کی فہرست کے ذریعے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، جنہیں حال ہی میں جیل سے رہا کیا گیا تھا۔

کراچی شرقی کے ڈی آئی جی منیر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ سندھ کے آئی جی کی زیرِصدارت پولیس کے سینئر افسران کا ایک اجلاس پولیس کے مرکزی آفس پر منعقد ہوا تھا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیموں، جیلوں سے رہا ہونے والے مشتبہ عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے اور شہر میں جاری دیگر حالیہ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے اس کا تعلق سمیت تمام ممکنہ زاویوں کے ساتھ صفورا گوٹھ بس حملے کی تحقیقات کی جائیں۔

منیر احمد شیخ جو انوسٹی گیشن ٹیم کے رکن بھی ہیں، کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور آئی جی نے اس ٹیم کو تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ہدایت کی۔

تفتیش کار دو ڈی ایس پیز کا قتل، بوہری برادری کے اراکین پر حملے اور بعض نجی اسکولوں کے باہر کریکر کے حملوں کی طرز کی حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ صفورا گوٹھ سانحے کی ممکنہ مماثلت کا بھی تعین کریں گے۔

اس اجلاس میں حال ہی میں رہا ہونے والے عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

بعد میں تفتیشی ٹیم کے اراکین نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور دو عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے۔

انہوں نے اُس بس کنڈیکٹر سے بھی ملاقات کی، جو ہلاک شدگان اور زخمیوں کو میمن میڈیکل ہسپتال لے گیا تھا۔

سٹی پولیس کے ترجمان کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو نے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے اطلاع فراہم کرنے والوں کے لیے دو کروڑ روپے انعام کا بھی اعلان کیا۔

ایک سیکیورٹی اہلکار بس حملے کے جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول دکھا رہا ہے۔ —. فوٹو اے پی
ایک سیکیورٹی اہلکار بس حملے کے جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول دکھا رہا ہے۔ —. فوٹو اے پی

انعام کی اس رقم میں ایک کروڑ صوبائی جبکہ ایک کروڑ وفاقی حکومت ادا کرے گی۔

سچل پولیس اسٹیشن پر، جس کے دائرہ اختیار میں یہ سانحہ وقوع پذیر ہوا تھا، اب تک مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔

محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے عہدے دار راجہ عمر خطاب نے جائے واردات کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ بعض عینی شاہدین کے مطابق چار حملہ آور بس میں سوار ہوئے جبکہ دو یا تین باہر کھڑے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بس کے 57 مسافروں میں زیادہ تر کے سروں میں کم فاصلے سے گولی ماری گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 ایم ایم کے پستول اور کلاشنکوف اس حملے میں استعمال ہوئی تھیں۔

اسی دوران اہلِ سنت و الجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کے مرکزی رہنما علامہ اورنگزیب فاروقی نے رینجرز پر الزام عائد کیاہے کہ اس نے بدھ کی رات کو گلشن معمار میں واقع ایک مدرسے پر چھاپے کے دوران شیخ الحدیث مولانا منظور مینگل اور اُن کے 90 طلباء کو گرفتار کرلیا تھا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار اہل سنت و الجماعت کے مقامی رہنما صلاح الدین پالاری کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔

ان کے مطابق رینجرز نے اورنگی ٹاؤن میں مقتول ڈاکٹر محمد فیاض اور عارف کی رہائشگاہوں پر بھی چھاپہ مارا تھا، لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

علامہ اورنگزیب فاروقی نے کہا کہ اہل سنت والجماعت کا اسماعیلی برادری کے لوگوں کے ساتھ کوئی ’تنازعہ‘ نہیں۔

انہوں نے صفورا گوٹھ کے سانحے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کا ان کی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’دنیا جانتی ہے کہ شہر کے اسکولوں کے باہر حالیہ کریکر حملوں کے ذریعے مذہبی جماعتوں کو بدنام کرنے کی کوشش کون لوگ کررہے ہیں۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں