لڑکی سے لڑکے والوں کی 'تفتیش' کیوں؟

اپ ڈیٹ 25 مئ 2015
لڑکی دیکھنے کے لیے آنے والوں کے سوالات ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں۔ — فوٹو فارس غنی
لڑکی دیکھنے کے لیے آنے والوں کے سوالات ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں۔ — فوٹو فارس غنی

”سارہ! بیٹا تیار ہو جاؤ، تمہاری خالہ لڑکے والوں کو لے کر آتی ہی ہوں گی۔ دیکھو کتنی دیر ہوچکی ہے، اوپر سے کھانے پینے کے انتظامات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔“ گذشتہ نا خوشگوار تجربوں سے اکتائی ہوئی سارہ کہتی ہے: "جی امی! ہوجاتی ہوں تیار۔ ان لوگوں نے کون سا مجھے دیکھتے ہی پسند کرلینا ہے، ہر بار کی طرح آئیں گے، اپنی تواضع کروائیں گے، اور پھر کوئی نہ کوئی خامی نکال کر چلے جائیں گے۔"

ایک سارہ ہی نہیں جو آئے روز ان حالات کا مقابلہ کرتی ہے اور رشتے کے لیے آنے والوں کے چبھتے سوالات کے نشتر سہتی ہے۔ پاکستان کے مڈل کلاس گھرانوں میں یہ رجحان تعلیم اور ترقی کے باوجود ختم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لڑکیوں کے ان حالات سے گزرنے کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہونا بھی ہے۔ اسی لیے یہاں لڑکیوں کی شادیاں مناسب وقت پر ہونا اور ان کے لیے مناسب رشتے کی تلاش کرنا لڑکی کے ماں باپ کے لیے کٹھن ترین مرحلہ ہوتا ہے، اور کم و بیش ہر گھر میں ہی لڑکیوں کو ان دشوار اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لیے شدید کوفت کا باعث بنتے ہیں۔

لڑکی دیکھنے کے لیے آنے والوں کے سوالات بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے فوج میں سپاہی بھرتی کرنے آئے ہیں: "کتنی عمر ہے، قد کتنا ہے، تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے۔" اس موقع پر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے بیٹے کے لیے لڑکی دیکھنے آئے ہیں، کسی پلاٹ یا گاڑی کا سودا طے کرنے نہیں۔

پڑھیے: لڑکا ریاضی میں کمزور، دلہن کا شادی سے انکار

ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ لڑکیوں کی مائیں اس موقع پر اپنی بیٹی کی خوبیاں گنوانے میں پیش پیش ہوتی ہیں، جبکہ دوسری جانب لڑکوں کی مائیں بھی اپنے فرزند کو کسی شہزادے سے کم نہیں سمجھتیں۔ شہزادے کے لیے شہزادی کی تلاش میں وہ لڑکیوں کا ہر زاویے سے جائزہ لیتی ہیں، اور اس جانچ پڑتال میں وہ ذرا بھی شرم یا عار محسوس نہیں کرتیں۔ لڑکی پر ایسے ایسے سوالات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے جو بعض اوقات اسے شرم سے پانی پانی کردیتے ہیں۔

لڑکی پسند کرنے کے دوران نہ صرف لڑکے کے اہل خانہ، بلکہ خود لڑکے کا بھی دماغ بھی آسمان پر ہوتا ہے۔ اس سوچ کو دوہرا معیار کہیں یا خودپسندی کہ لڑکا کتنا ہی نکما، بدشکل، یا ان پڑھ ہو، اسے ہونے والی دلہن خوب صورت اور تعلیم یافتہ چاہیے ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق لوگوں نے اپنی سوچ کو بھی ڈھال لیا ہے، مگر لڑکی پسند کرنے کے پیمانے پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے ہم آج بھی اسی پرانی روایتی سوچ پر قائم ہیں۔

ہمارے اس قدامت پسند معاشرے میں لڑکے کی ماں ہونا اعزاز کی بات سمجھا جاتا ہے اور وہ عورت لڑکے کی ماں ہونے کے زعم میں یہ تک بھول جاتی ہے کہ جو امتحان وہ دوسروں کی بیٹیوں کے لے رہی ہے، ان کا سامنا ماضی میں وہ خود بھی کرچکی ہے، جنہیں نہ بھولتے ہوئے دوسروں کی بیٹیوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ مگر یہاں لڑکے کی ماں کا اپنے ماضی کے تجربوں کو دہراتے ہوئے مطالبہ ہوتا ہے: ”میری ہونے والی بہو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر طرح کے گھریلو امور میں طاق ہونی چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر شوہر کے ساتھ معاشی معاملات میں بھی ہاتھ بٹا سکے، مگر عمر کی زائد نہ ہو۔“

ذرا ہوش کے ناخن لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کم عمر بھی ہو؟ یہ تضاد نجانے کتنی ہی لڑکیوں کے سروں میں سیاہی سے سفیدی لے آتا ہے اور وہ والدین کے گھر میں ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لڑکے والوں کا یہ حوصلہ شکن رویہ بے بس والدین کی اپنی بیٹی بیاہنے کی خواہش کو ماند کرتا چلا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: لڑکی کی عمر گذر گئی

بعض دفعہ لڑکے کے والدین بے رحم خریدار کی شکل میں لڑکی کا وزن، قد، اور چہرے کے خدوخال کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں، یہ بھولتے ہوئے کہ ان کا بیٹا کوہ قاف سے آیا شہزادہ نہیں، یا اس لڑکی نے اپنے خدوخال خود تخلیق نہیں کیے ہیں جو اس کا اتنا کڑا امتحان لیا جارہا ہے۔

اگر لڑکے والے اپنی کڑی شرائط پر پورا اترنے والی لڑکی پسند کر بھی لیتے ہیں، تو اس کے بعد اگلا مرحلہ لڑکی کے والدین کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ شادی کے انتظامات کی طویل فہرست ان کے سپرد کر دی جاتی ہے، جسے ممکن بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہٰذا بیٹی کو رخصت کرنے کے لیے والدین قرض لیتے ہیں، یا اپنی عمر بھر کی جمع پونجی بیچ دیتے ہیں، اس بات کا ڈر دل میں بٹھائے کہ کہیں ان کی بیٹی گھر نہ بیٹھی رہ جائے، زمانہ کیا کہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر مجبور والدین کا مقصد ہر مشرقی سوچ رکھنے والے ماں باپ کی طرح جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونا اور اسے اپنے گھر آباد دیکھنا ہوتا ہے۔

اگر ہمیں اپنے معاشرے سے اس فرسودہ طریقے سے لڑکی پسند کرنے کی سوچ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں خود سے شروعات کرنی ہوگی، کیونکہ یہ فرسودہ سوچ ہمارے معاشرے کو صحت مند معاشرہ بنانے کے بجائے مزید تنزلی کی جانب لے جارہی ہے۔

لڑکے والوں کے ان اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لیے پہلا قدم لڑکی کے والدین کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی بیٹی کو شو پیس کی طرح سجا کر لڑکے والوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ لڑکے والوں کو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوتا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں کے ماں باپ کسی بھی صورت میں جلد سے جلد لڑکی کی شادی چاہتے ہیں، لہٰذا وہ بھی ہر طرح کا جائز و ناجائز مطالبہ منوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس لیے بیٹی کو بوجھ کے بجائے رحمت سمجھیں، جب اس کی شادی کا درست وقت آئے گا، تو خدا کی مدد سے یہ مرحلہ بخوبی سر ہوجائے گا۔

دوسری جانب لڑکے والوں کو بھی اپنا لڑکی پسند کرنے کا پیمانہ تبدیل کرنا چاہیے۔ انہیں اپنے گھر کی بہو اور بیٹے کی بیوی تلاش کرتے یہ پہلو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے، لہٰذا لڑکی کے منفی پہلوؤں کے بجائے مثبت پر زیادہ غور کریں، اسی سوچ پر چل کر ان کا گھرانہ ایک خوشگوار زندگی بسر کر سکے گا اور ان کی آنے والی نسلیں بلند اخلاق اور اعلیٰ روایات کی حامل ہوں گی۔

تبصرے (21) بند ہیں

عثمان احمد May 23, 2015 04:09pm
اس تحریر کو پڑھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی خاتون کی لکھی ہوئی ہے جو صرف تصویر کے اس رخ پر بات کررہی یہ جو ان کو معلوم ہے۔ محترمہ! تفتیش لڑکی والے لڑکے سے بھی کرتے ہیں۔ بلکہ کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ صرف نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
fozia May 23, 2015 04:42pm
@عثمان احمد آپ کے جواب کو پڑھتے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ پر بھی یہ کچھ بیت چکا ہے۔ویسے مصنفہ نے حالات کی عمدہ ترجمانی کی ہے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ May 23, 2015 04:43pm
شادی پر بہت خرچہ ہوتا ہے۔ شادی ناکام ہونے کی صورت میں دوسری شادی کے لیے کافی تگ و دود کرنی پڑتی ہے۔ مطلب یہ کہ شادی زندگی بھر کے ساتھ کا تعلق ہوتا ہے۔ زندگی بھر کا جیون ساتھی ڈھونڈنے کے لیے تفتیش کرنا کوئی غیرعقلی کام نہیں ہے بلکہ ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ یہ تفتیش دونوں کُڑی اور مُنڈے والے اپنی طرف سے کرتے ہیں اکیلی لڑکی والے نہیں۔ آج کی لڑکی بہت ہوشیار ہو گئی ہے سٹار پلس وغیرہ جیسے ڈرامے ویکھ ویکھ کر۔ حالانکہ ڈراموں کو ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے تفتیش چونکہ یکطرفہ صرف لڑکے والوں پر تھوپی گئی ہے اس لیے بلاگ کو غیرجانبدار نہیں کہا جا سکتا۔ لکھاری کا کام تمام پہلوؤں کو صفحہ قرطاس میں لانا ہوتا ہے اور فیصلہ ریڈرز پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خود سوچیں کہ ‘میں کیہڑے پاسے جانواں، میں منجی کتھے ڈانواں‘۔ آخر میں یہ کہ تفتیش کا کام دونوں لڑکی اور لڑکے والوں کے بڑوں سے لیکر متاثرین یعنی لڑکی اور لڑکے کو دے دینا چاہیے اور اس سلسلے میں دونوں کے مابین دو تین میٹنگز کروا کر ان کی رائے کو تفتیش سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ شادی پکی یا نہیں۔
Abdullah May 23, 2015 05:19pm
Madiha you are right in some cases but I personally experienced, parents of Girls are not less in their demands, expectations and investigations.
salma rahman May 23, 2015 05:39pm
This is only one side of a picture. i am a mother of two boys. good looking, well educated , well placed family.when i was was a girl, i faced great problem in search of a match. God blessed me with two sons, i decided not to search for a girl like people do, i thought i will go for a girl nearby e.g my friends, office colleagues etc but actually it did not happen like that. when i started for that i got somple refusals like " we will go for a doctor, and your is studying abroad, and he is not earning good, wait for a good job, you dont have your own house etc. so very materialistic approach. so i do not gree with the given article. problem is on both sides. and matchmakers ............ a huge variety of match makers exist in lahore with a moto to make money .solution is to make a database at a level like NADRA, with a confidential access to it. only one source should be there to get rid of match makers.ofcourse this a big problem for all parents to find a proper match for their boys or girls, bothcases.
Mohammad Khalid May 23, 2015 06:53pm
اس تحریر کو پڑھتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی خاتون کی لکھی ہوئی ہے جو صرف تصویر کے اس رخ پر بات کررہی یہ جو ان کو معلوم ہے۔ محترمہ! تفتیش لڑکی والے لڑکے سے بھی کرتے ہیں۔ بلکہ کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ صرف نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ I am 100% agreed with Mr. Usman's statement Wesy yeh totally ghair Islami treeqa hy . Islam hamain sadgi ka dars deta hy . jis main in cheezon ki gujaish nahi.
ًمحمد وقاص خان May 23, 2015 08:45pm
لڑکی والوں کارویہ میں آپ کو بتاتا ہوں تقریباً14 ماہ سے میرے والدین میرے رشتہ کیلیے ایک جگہ بات کر رہے تھے۔ ہم بھی لوئر مڈل کلاس سے ہیں جب کہ لڑکی والے بھی۔ اس سارے عرصہ میں پہلے وہ ہماری قومیت وغیرہ کی تحقیق کرتے رہے، پھر کبھی وہ اپنے چچا کو ساتھ لے آتے کبھی پھوپھو کے بیٹوں کو کبھی دادا کو کہ لڑکے سے ملنا چاہتے ہیں۔ آخر اللہ اللہ کر کے انہوں نے ہاں کر دی اور اگلے مہینے منگنی کی تاریخ دے دی، کل جب ڈیوٹی سے گھر واپس پہنچا تو پتا چلا کہ انہوں نے فون کر کے انکار کر دیا ہے کہ ہماری برادری کا مسئلہ ہے۔ اور ادھر ہم اپنی برادری میں بھی بتا چکے ہیں کہ اگلے ماہ منگنی کیلیے جانا ہے۔
kalim ullah May 23, 2015 09:29pm
Mam ap konsai zamanai mai reh rahi hai. Ajj kal tou larki k ghar walai nahi. balkai larki khud pochati hai. k larkai kua karta hai? kitna kamta hai? dekhnai mai kesa hai? jesai larkai ka post martam ka irada hoa.
Farman May 23, 2015 11:14pm
Writer nay ne tu kuch haqayaq se parda otaya hay par article likte howe ye bath bhool gaye hain k aj kal larki walon k nakhre aur larkon mat aib talash kar k larki wale aksar ache larkon se bhi mehroom hojate hain.. hum ne apni zindgi may ye cheezin kai dafa deki hain k larki ki maa apnI beti k liye har waqt shehzade aur 100 percent perfect larke ka rishta duaon may mangti rehti hay..
محمد ارشد قریشی (ارشی) May 23, 2015 11:40pm
یہی ستم ظریفیاں ہی لڑکیوں کی عمریں گذار دیتی ہیں اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ لڑکوں کی بھی بہت تفتیش کی جاتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں لڑکا جب چاہے اس کی شادی ہوسکتی ہے نوجوانی ، جوانی، ادھیڑ عمر میں اور یہاں تک کہ بوڑھاپے میں بھی لیکن لڑکیوں کے لیئے معاملات کچھ برعکس ہیں ان کی عمر کچھ ہی زیادہ ہوتی ہے تو رشتے آنا بند ہوجاتے ہیں اور یہ کسی بھی لڑکی لے لیئے بہت صدمے کی بات ہوتی ہے کہ اسے کہا جائے کہ اس کی عمر تو زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ اتنے لمے عرصے اس کی شادی کے لیئے جو تفتیش کی جاتی رہی وہ خود اس کے لیئے تشویش بن گئی ۔ مسعلہ یہ نہیں کہ یہ بلاگ ایک لڑکی نے لکھا ہے حقیقیت یہ ہے کہ اس نے اس معاشرے کی تلخ سچائی بیان کی ہے اسی بلاگ میں ایک مزید بلاگ کا حوالہ دیا گیا ہے " لڑکی کی عمر گذر گئی" وہ کسی لڑکی نے نہیں لکھا بلکہ کسی مرد نے لکھا ہے ۔مرد کو تو عمر گذرنے کے بعد بھی اپنی پسند کی شادی کا حق ہوتا ہے لیکن لڑکی کی جب اس معاشرتی حساب سے عمر گذر جاتی ہے تو اس کی پسند والا مسعلہ بھی گذر جاتا ہے پھر اس کے لیئے جیسا بھی رشتہ ہو اسے ہی غنیمت سمجھا جاتا ہے ۔
muhammad ayaz May 23, 2015 11:56pm
ARAY BHAI. APUN TO DOCTOR HE (CHILD SPECIALIST AUR WO BHI SAUDIA MEIN). ZARA DOSRI SHADI KARNA CHAHTA HUN. WAJA KUCH BHI NAHIN. BEVI BHI ACHI HA. AIK BETA BI HA. PHIR BHI ZARA DOSRI SHADI KA SHAUQ HA.
Imran May 24, 2015 02:05am
یہ تصویر کا ایک رخ ہے !!!!
ؒلٗیق احمد May 24, 2015 05:38am
مدیحہ خالد۔ اللہ آپکو جزاہ دے، آپ نے "اُس/ اِس معاشرہ" کی حقیقت کو بجا طور بیان کیا ہے، میں خود ماشاء اللہ چار بیٹوں کا بھی باپ ہوں، مگر حقیقت حقیقت ہوتی ہے۔ معلومات حاصل کرنا کوٗی بری بات نہی، آگر اپنی بھین اور بیٹی کو بھی اُسی پلڑے میں رکھ کر دیکھ لیں تو واضع ہوگا، بات یہ کہ اس کھیل میں انسان کی تزلیل نہ ہو، عزت نفس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ صرف وقتی، اِس عارضی دولت و شہرت کے نام پر بیلک میل نہ کریں اور نہ ہوں،
fozia May 24, 2015 09:33am
@نجیب احمد سنگھیڑہ آپ نے جو مشورہ دیا ہے اس پر بہت سے لڑکے لڑکیاں پہلے عمل کر رہے ہیں۔ P:
yaseen May 24, 2015 10:01am
اہم موضوع پر ہلکی پھلکی تحریر بہت اچھی ہے مگر کیا ہی بہتر ہوتا اگر آپ تصویر کا ایک رخ نہ دکھاتی بلکہ موضوع کو ہر زاویہ سے دیکھتی اور لکھتی اس کے علاوہ بھی چند مسائل ہیں وہ بھی شامل تحریر کرتیں تو بہت بہترہوتا اور احساسات کی کمی ہے بس
Usman arshad May 24, 2015 02:18pm
It happens from both sides.The girls family also sees money of boy not his character.
ایک قاری May 24, 2015 02:19pm
جن تمام لوگوں نے لکھاری کو ایک رخ دکھانے والا کہا ہے، یا یہ کہا ہے کہ معلومات حاصل کرنا ضروری ہیں، ان سے گذارش ہے کہ بلاگ دوبارہ پڑھیں۔ مسئلہ معلومات حاصل کرنے میں نہیں بلکہ وہ طریقہ ہے جس طرح سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ رشتہ لینے کے لیے آنے والے لوگوں کے سوالات ایسے ہوتے ہیں: بڑی بیٹی کی شادی نہیں ہوئی تو ان کی کیوں ہو رہی ہے؟ گھر اپنا ہے؟ کرائے کا ہے؟ تھوڑا گاؤں والا پس منظر ہو تو ذات کون سی ہے، گاؤں کون سا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ معلومات حاصل کی جائیں لیکن تحقیر کا انداز نہ اپنا جائے جیسے کہ لڑکی دیکھنے نہیں بھاؤ تاؤ کرنے آئے ہیں۔
IQBAL May 24, 2015 02:28pm
main ne app ka blog para hy. ye kisi larki ka ho ya larkey ka. baat tu such hay. lakn meray khayal main iss ka aik acha tareqa ye hay k larky k khandan walay phelay kisi bhaney sy larki ko khain dakh lain k uss ko pata na chaly. ager larki passand aye tu phir gar janaey ka faisal kerain. kun k iss sy kisi ki dil azari ni hoti. our sab k bar ker aik baat jo haqqeqat ki taran ayan hy k jo rishta dakhny atey hain un ki bi bati ho sakti hy wo b iss mushkal sy guzar sakty hain. simple jaisa kero gy waisa baroo gy. our meri zindgi ka aik nichoor hy k app larky waly hain ye larki waly appass main sirf such bolain. ager rishtay ki bat such sy hoo gi tu rishta bi mazboot banay ga. bhi meray tu walid sb ne larki waloon ko sachi baat ki jo larki waloon ko passand ai our shadi ho gai. abb mashalla shadi ko 10 saaal guzar gay hain. allaha ka bhot fazal hy
محمد وقاص May 25, 2015 10:14pm
بلکل حقیقت پر مبنی تحریر ہے تاہم لڑکی کے والدین بھی بعض اوقات کچھ کم خواہش نہیں رکھتے۔ لڑکے کا کاروبار اچھا ہو یا نوکری ہوتو تنخواہ لاکھوں میں ہو، گاڑی ہو اور وغیرہ وغیرہ۔ لڑکے کے والدین کو زیادہ عقل سے اور لڑکی کے والدین کو ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے اعتدال ہوگا تو گاڑی چلے گی ورجہ کھڑی ہی رہے گی
Faizan Ahmed May 26, 2015 01:44pm
@Abdullah AGREED
Faizan Ahmed May 26, 2015 03:03pm
@محمد وقاص great answer