کراچی: عام طور پر یہی خیال پایا جاتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں 23 مئی کو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی حاضری کے موقع پر عدالت کا محاصرے میں لینے کی مکمل کارروائی صوبائی اور شہر کی پولیس کےسربراہوں کے احکام کے تحت کی گئی تھی۔

چنانچہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے صوبائی اور شہر کی پولیس کےسربراہوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان افسران کے نام نہیں بتائے گئے جنہوں اس موقع پر نے سادہ کپڑوں میں ماسک لگائے اہلکاروں کو عدالت کے احاطے میں تعینات کیا تھا، تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

دو رکنی عدالتی بینچ کے سربراہ جسٹس سجاد علی شاہ نے انسپکٹر جنرل پولیس غلام حیدر جمالی کو سندھ ہائی کورٹ کے تحفظ میں ناکامی پر سخت الفاظ میں مخاطب کیا۔

انہوں نے پولیس کے صوبائی سربراہ سے کہا کہ ’’ہم ایسا آئی جی پی نہیں چاہتے، جو عدالتوں کا تحفظ نہ کرسکتا ہو۔‘‘

سخت الفاظ میں انہوں کہا کہ ’’یہ ہائی کورٹ پر حملہ ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ جب پولیس اس طرح کے انداز میں عمل کرے تو کیا عدالت کو فوج طلب کرنی چاہیے۔

جب آئی جی پی نے ججوں کو بتایا کہ پولیس کا یہ اقدام بعض جرائم پیشہ افراد کو ہائی کورٹ میں گھسنے سے روکنا تھا، جو جدید اسلحے سے لیس تھے، تو جسٹس سجاد علی شاہ نے صوبائی پولیس کے سربراہ سے سادہ لباس افراد کو تعینات کرنے والے افسران کے نام دریافت کیے تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

عدالتی بینچ نے آئی جی پی سے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور کہا کہ ’’پولیس افسران کے حوالے سے اس طرح کی خاموشی نے ہمارے ذہنوں میں یہ شک پیدا کردیا ہے کہ وہ عدالت سے حقائق چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘

عدالت نے کہا اگر ہم انسپکٹر جنرل آف پولیس کا یہ نکتہ نظر تسلیم کرلیں کہ جدید اسلحے سے لیس ہائی پروفائل مجرموں نے عدالت کے احاطے میں گھسنے کی کوشش کی تو انہیں عدالت کے گیٹ پر گرفتار کرلیا گیا اور وہ بھی فائرنگ کے تبادلے کے بغیر تو پھر انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ایڈیشنل آئی جی پولیس نے خاص طور پر اور ڈی آئی جی اور ایس ایس پی ساؤتھ نے عدالت کے رجسٹرار سے بات کرکے انہیں اعتماد میں لینے کے بجائے ان سے رابطہ کرنے سے گریز کیوں کیا۔

ذوالفقار مرزا کی سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر تعینات سادہ لباس اہلکار۔ —. فائل فوٹو آن لائن
ذوالفقار مرزا کی سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر تعینات سادہ لباس اہلکار۔ —. فائل فوٹو آن لائن

انہوں نے اپنے حکم میں تحریر کیا پولیس افسران کا رویہ ہمیں یقین کرنے پر مجبور کررہا ہے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی ساؤتھ کی کمانڈ کے تحت یہ پورا آپریشن کیا گیا۔

ججوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ پولیس نے ہفتے کو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی رہائشگاہ پر عدالتی احکامات کے باوجود سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی، اور عدالت کے حکم پر عملدرآمد کے لیے رینجرز کو طلب کیا گیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ذمہ دار پولیس افسران ان آفیسروں کے نام بتائیں، جنہوں نے اس طرح کے آپریشن کا اختیار دیا گیا تھا اور سادہ لباس میں ماسک لگائے اہلکاروں کو اجازت دی تھی، اگر وہ اس میں ناکام رہے تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام حیدر جمالی، کے ساتھ ساتھ اے آئی جی پی کراچی میر غلام قادر تھیبو کے خلاف کارروائی کی جائے۔

عدالت کے نوٹس پر چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ بھی عدالت میں پیش ہوئے، انہیں بھی ہدایت کی گئی کہ وہ صوبائی حکومت کا نکتہ نظر پیش کریں اور اس بات کی وضاحت کریں کہ سندھ ہائی کورٹ کے محاصرے کی کس نے ہدایت کی تھی اور کس نے سادہ لباس میں پولیس اہلکاروں کو اس آپریشن میں حصہ لینے کا اختیار دیا تھا۔

اس موقع پر میڈیا کے اُن نمائندوں کی جانب سے ایڈوکیٹ صلاح الدین احمد پیش ہوئے، جنہیں پولیس اہلکاروں نے بُری طرح مارا پیٹا تھا۔ انہوں نے ان افسران کی نشاندہی کے لیے عدالت کی مدد کی درخواست کی جو اس بدسلوکی میں ملوث تھے۔

عدالتی بینچ نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس آپریشن میں شامل افسران کی تلاش کے لیے میڈیا کوریج فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

اسی دوران عدالت نے رینجرز کو ہدایت کی کہ اگلے حکم تک وہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سیکیورٹی فراہم کرتی رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں