آپ نے سوچا ہوگا کہ ایک زندہ یعقوب میمن اگر ناگپور میں پھانسی کے پھندے سے بچ نکلے، تو پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا۔ آخر کیوں ہندوستانی حکومت اس ہفتے اس کی سالگرہ کے موقع پر اس کی جان لینا چاہتی ہے، جو تقریباً ایک دہائی سے سزائے موت کا منتظر ہے؟

ہم نے ہندوستان میں جاری اس تنازع پر پاکستان کی جانب سے کچھ نہیں سنا ہے۔ کیا آپ کو اس کا الزام یاد ہے کہ ممبئی میں 1993 کے دھماکوں کے بعد جب وہ دیگر ملزمان کے ہمراہ ممبئی سے بھاگا، تو اسے کراچی میں خفیہ پناہ دلوانے میں پاکستانی حکام کا کردار تھا؟ ان دھماکوں میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پیر کی صبح میں یوٹیوب پر یعقوب میمن کا 1994 کا انٹرویو دیکھ رہا تھا۔ نیوز ٹریک کی مدھو تریہان نے کھٹمنڈو میں ہندوستانی پولیس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد اس سے ملاقات کی تھی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کی گرفتاری رضاکارانہ نہیں تھی، لیکن جو شخص اسے جھانسہ دے کر ہندوستان لے گیا تھا، وہ اس بات کا انکار کرتا ہے۔

یہ حیرانی کی بات ہے کہ کس طرح مہلک جرائم کے ملزمان کو ہندوستان میں پولیس حراست کے دوران بھی ٹی وی پر لایا جاتا ہے۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ اس طرح کے انٹرویوز میں ملزمان کو اچھی طرح بریف کیے گئے پرائم ٹائم ٹی وی میزبانوں کے ذریعے مجرم ثابت کیا جاتا ہے۔ افضل گرو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کشمیر کے پھل فروش کو ہندوستانی سپریم کورٹ کے مطابق "معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کی خاطر" 2001 کے پارلیمنٹ حملہ کیس میں سزائے موت دے دی گئی۔ رحم کی اپیل کے موقع پر متوازن صحافت کے دعویدار ایک ٹی وی چینل نے اس کا پرانا انٹرویو بھی نشر کیا تھا۔

یعقوب میمن کا جو انٹرویو میں نے انٹرنیٹ پر دیکھا، اس میں وہ نہایت واضح تفصیلات بتا رہا تھا کہ کس طرح اس پاکستانی فرد یا اس پاکستانی ایجنٹ نے اسے اور اس کے خاندان کو کراچی سے دبئی جاتے ہوئے پی آئی اے کی پرواز سے اتروایا تھا۔ یعقوب نے تھائی لینڈ جانے کے بارے میں چیدہ چیدہ نکات بھی بتائے، اور یہ بھی کہ کیوں وہ کراچی میں رہنے والے اپنے بڑے بھائی سے بات کرنے سے نفرت کرتا تھا جو بم دھماکوں کا مرکزی ملزم تھا، اور داؤد ابراہیم کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا۔

اچانک انٹرویو غائب ہوگیا اور اسکرین پر یہ پیغام آیا: "آپ کا مطلوبہ ویب ایڈریس ڈپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونیکیشن، گورنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے ملنے والی ہدایات پر بلاک کر دیا گیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے ایڈمنسٹریٹر سے رابطہ کریں۔" ہندوستانی حکومت نے یعقوب میمن کا وہ انٹرویو ہٹا دیا جس میں اس نے ممبئی حملوں کے لیے کم و بیش پاکستان پر الزام عائد کیا۔ کیوں؟

اس عجیب واقعے کو سینسرشپ سمجھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ آپ اسے کس طرح بیان کریں گے؟ بڑے تناظر میں دیکھیں تو حال ہی میں مودی سرکار نے صحافیوں کو ایوانوں سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق اب کوئی بھی افسر یا وزیر میڈیا سے براہِ راست ملاقات نہیں کر سکتا۔ میڈیا کو متعلقہ وزارت کے ترجمان سے بات کرنا ہوگی۔ اتنی پابندی تو اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دنوں میں بھی نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایمرجنسی کے دوران کئی صحافی اس طرح کی پابندیوں سے بچ نکلتے تھے۔

تو یعقوب میمن کو پھانسی دینے میں جلدی کیوں کی جا رہی ہے؟ ان باتوں کو چھپانے کی ضرورت ہی کیا ہے جو وہ کئی سال پہلے عوام کے سامنے کر چکا ہے، اور جس میں وہ پاکستان کو اور خود کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے؟ سادہ سی وجہ ہے: تشدد پر آمادگی، جو ایک عرصے سے ہندوستانی سیاست کا جزو بن چکا ہے۔ اس سے نہ صرف اندرونِ خانہ مشکلات سے عارضی طور پر آرام ملتا ہے، بلکہ اس سے ہندوستان کا انتہائی قوم پرست ایجنڈا بھی تر و تازہ رہتا ہے۔

مثال کے طور پر نومبر 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کو نومبر 2012 میں پونے میں خفیہ طور پر پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس وقت استغاثہ نے غلط طور پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ قصاب جیل میں بریانی مانگ رہا تھا۔

بریانی کی کہانی کو تب سے لے کر اب تک باہمت کارناموں کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بحیرہء عرب میں ہندوستانی کوسٹ گارڈز نے اسمگلروں کی ایک کشتی کو عملے سمیت تباہ کر دیا۔ جو توجیہ پیش کی گئی اس میں بریانی کا ذکر بھی موجود تھا۔ کشتی کو تباہ کردینا ان مشتبہ اسمگلروں کو لذیذ کھانے کھلانے سے زیادہ آسان تھا، جنہیں سرکاری طور پر پاکستانی دہشتگرد قرار دیا گیا تھا۔

منموہن سنگھ کی حکومت اس وقت ہچکولے کھانے لگی جب اس نے اجمل قصاب کو پھانسی دی، اور پھر افضل گرو کو بھی۔ 3 فروری 2013 کو گرو کی رحم کی اپیل مسترد کی گئی، اور 9 فروری کو اسے دہلی کی تہاڑ جیل میں خفیہ طور پر پھانسی دے کر جیل کے اندر دفن کر دیا گیا۔ گرو کے خاندان کو اس کی پھانسی کی اطلاع نہیں دی گئی تھی، اور نہ ہی انہیں اس کی لاش دی گئی۔

قوم پرست اقدار کے لیے دائیں بازو کے اس جنون کے درمیان آخر لبرل جمہوری حلقوں کی جانب سے امید کی ایک کرن سنائی دی ہے۔ نامور قانون دانوں، ممبرانِ پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں کے قائدین، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے صدر مکھرجی سے اپیل کی ہے کہ یعقوب کی رحم کی اپیل قبول کی جائے۔

صدر کو جمع کرائی گئی اس پٹیشن کے ساتھ 2007 میں مرحوم بی رامن کے لکھے گئے ایک مضمون کا حیرت انگیز طور پر انسان دوست اقتباس بھی ہے۔ بی رامن اس وقت را میں پاکستان ڈیسک کے سربراہ تھے، اور وہ مانتے تھے کہ یعقوب میمن کو پھانسی نہیں ہونی چاہیے۔

کئی سابق سینئر ججز اور دانشوروں کے دستخط والی اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان قانونی و اخلاقی طور پر سزائے موت ختم کرنے کا پابند ہے، کیونکہ یہ سزائے موت کے خلاف اقوامِ متحدہ کی دستاویزات پر دستخط کر چکا ہے۔ جب تک پارلیمنٹ ان معاہدوں سے ریاست کو آزاد کروانے کا فیصلہ نہیں کرتی، تب تک ریاست اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 1966 کے اصولوں پر عمل کرنے کی پابند ہے۔

دوسرا نکتہ کہتا ہے کہ یعقوب میمن کے خاندان کو اس کی پھانسی کی تاریخ سے پہلے نوٹس نہیں دیا گیا تھا، اس لیے اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے کا اس کا حق اس سے چھینا جا رہا ہے۔

اور آخر میں رامن کا خط بھی پٹیشن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ رامن نے لکھا تھا "میں یہ دیکھ کر پریشان ہوں کہ یعقوب میمن اور اس کے خاندان کے بارے میں کئی حالات و واقعات استغاثہ عدالت کے علم میں ممکنہ طور پر نہیں لایا ہے۔" وہ وہی شخص تھے جنہوں نے کھٹمنڈو میں یعقوب سے ہتھیار ڈلوائے تھے۔ رامن یعقوب میمن کو زندہ دیکھنے سے خوفزدہ نہیں تھے۔

انگلش میں پڑھیں.

لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 جولائی 2015 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں