انڈین گولوں کا ہدف بننے والی بستی

04 ستمبر 2015
اقوام متحدہ کے مبصرین سیالکوٹ کے نواح میں کندن پور گاؑؤں میں پہنچ رہے ہیں— فوٹو مرزا خرم شہزاد
اقوام متحدہ کے مبصرین سیالکوٹ کے نواح میں کندن پور گاؑؤں میں پہنچ رہے ہیں— فوٹو مرزا خرم شہزاد

سیالکوٹ دیگر کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا شہر ہے جو صنعتوں، بڑے تاجروں اور سرمایہ کاروں کا گھر ہے، اس کا کنٹونمنٹ بہت خوبصورت، منصوبہ بندی سے تیار کردہ ہے۔

مگر کنٹونمنٹ سے نکلنے کے بعد متنازع جموں سے ملحق پاکستان کی 193 کلومیٹر طویل ' ورکنگ باﺅنڈری' کے محافظ چناب رینجرز کے ہیڈکوارٹرز تک لے جانے والی سڑک بہت خراب حالت میں ہے۔

جب یہ سڑک فوجی تنصیبات کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے جہاں ٹینک پارک اور فوجی ورزشیں کرتے نظر آتے ہیں تو سرحد تک رسائی کے راستے کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوجاتی ہے۔

سرحدی دیہات کے اندر جانے کے بعد آپ کے سامنے سرسبز دھان کے کھیت اور انسانوں کے تیارکردہ سمیت قدرتی جنگلات آجاتے ہیں، یہاں سڑک بتدریج ان دور دراز واقع دیہات کے باسیوں کی قسمت کی طرح تباہ شدہ نظر آنے لگتی ہے۔

ورکنگ باﺅنڈری جہاں ہندوستان نے خاردار باڑیں اور سرچ لائٹس نصب کررکھی ہیں تاکہ خطے پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھا جاسکے، سے محض 365 میٹر دوری پر جہاں فوج نے دفاعی خندق کھود رکھی ہے، ایک غیر مستحکم راستہ واقع ہے جو کندن پور گاﺅں کی جانب جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جو امن کے زمانے میں زندگی اور سرگرمیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔

مگر ورکنگ باﺅنڈری اور لائن آف کنٹرول کے قریب پاکستانی دیہات میں اب امن نایاب ہوچکا ہے۔ اب کندن پور اور درجنوں پاکستانی دیہات پر انڈین مارٹر گولے بارش سے زیادہ برستے ہیں جو زرخیر زمین کی آبیاری کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔

اپنی زمین سے محبت اور اپنے دھان کے کھیتوں سمیت اپنے اصبطل میں موجود مویشیوں کے لیے اچھے طریقے سے تعمیر شدہ شدہ گھروں میں مقیم کندن پور کے باسی خوف کے باوجود کسی طرح یہاں رہنے کا عزم کیے ہوئے تھے مگر پھر گزشتہ جمعرات کی نصف شب آگئی۔

رات ایک بجے جب جمعرات کی رات جمعہ کی صبح کی جانب بڑھ رہی تھی، انڈین بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے مارٹر گولوں کی بارش کردی۔ یہ شیلنگ علی الصبح اس وقت شدت اختیار کرگئی جب لوگ اپنے گھروں سے نکل کر نماز کے لیے مساجد اور کام کے لیے کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔ لگ بھگ ہر دوسرا گھر انڈین گولوں یا اس کے ٹکڑوں کا نشانہ بنا جس کے نتیجے میں کندن پور کے 8 افراد ہلاک اور 47 زخمی ہوگئے۔

اب متعدد گھر تباہ شدہ حالت، ٹوٹی دیواروں کے ساتھ کھڑے ہیں، چھتوں میں سوراخ ہیں، گولوں کے ٹکڑوں کے نشانات پلاستر پر دیکھے جاسکتے ہیں، فرنیچر تباہ اور خون سے لت پت ہوگیا۔

چھ ہزار آبادی کے اس گاﺅں کے بیشتر افراد نے اپنے گھروں کو بند کیا اور سیالکوٹ یا دیگر علاقوں کی جانب نکل گئے۔ ان میں سے متعدد اپنے مویشیوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تاکہ اپنے اثاثوں کا تحفظ کرسکیں۔

دکانیں اور اسکولوں تالے لگ کر صحرا کا منظر پیش کررہے ہیں، گلیوں میں رینجرز، انتظامیہ کے اہلکار اور وہ افراد موجود ہیں جو صورتحال کی سنجیدگی کا جائزہ لینے کے آئے جن میں اقوام متحدہ کے نمائندگان بھی شامل تھے۔

وہاں ان کا خیرمقدم ان چند دیہاتیوں نے کیا جو اب بھی وہاں ہے کیونکہ اپنے مویشیوں یا شہر میں رہائش کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے یا وہ ایسے لوگ ہیں جو متاثرہ خاندانوں اور یہاں آنے والوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں۔

یہ علاقہ اب ماتم جو کھڑکیوں سے سنا جاسکتا ہے، کی آوازوں سے بھر گیا ہے جو ان ماﺅں، بہنوں اور بھائیوں کا ہے جن کی ہندوستانیوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں مگر پھر بھی وہ اپنے قریبی عزیزوں کو کھو چکے ہیں۔

لیلیٰ وہ خاتون ہیں جن کے شوہر، اس کا دیور اور ایک بھتیجہ گھر کے احاطے میں گولہ ٹکرانے سے ہلاک ہوگئے، وہ اشک بھری آنکھوں کے ساتھ کہتی ہیں " اللہ کیا آپ کے پاس ہمارے لیے کوئی رحم نہیں، آپ کو ہم پر کچھ تو ترس کھانا چاہئے، آپ نے ہم سے ہمارا سب کچھ کیوں چھین لیا"۔

لیلی کے گھر کا بیت الخلاءاور داخلے کا راستہ جہاں ان مرحوم افراد نے پناہ لینے کی کوشش کی، اب سیاہ پڑ جانے والے خون کا خشک تالاب بن چکا ہے، ان کے جوتے اور کپڑے خون سے لت پت وہاں موجود ہیں۔

وہ بلند آواز سے روتے ہوئے کہتی ہیں " اب ہمارے لیے کمانے والا کوئی نہیں، اب ہمیں اپنی زندگی بھکاری بن کر گزارنا ہوگی، ہندوستان نے عام افراد پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے، یہ بربریت ہے"۔

اپنے پندرہ سالہ بھائی سے محروم ہوجانے والے مرتضیٰ جو اپنے گھر کے احاطے میں اس جگہ کھڑے ہیں جہاں ایک گولہ گرنے سے گہرا گڑھا پڑگیا، کہتے ہیں " اگر ہندوستان لڑائی چاہتا ہے تو اسے ہماری فوج سے لڑنا چاہئے، یا اگر وہ ہم سویلین کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو اسے ہمارے سامنے آکر مقابلہ کرنا چاہئے پھر ہم دیکھیں گے کہ کون کسے قتل کرتا ہے۔ دیواروں کے پیچھے سے گولے برسانا اور سویلین کو ہدف بنانا غیر انسانی، غیر اخلاقی اور بزدلانہ اقدام ہے"۔

ساٹھ سالہ منیر احمد جو اپنی اہلیہ سے محروم ہوئے جبکہ وہ اور ان کی چار بیٹیاں، بہو اور دو بیٹے زخمی ہوئے، کہتے ہیں کہ انڈین فورسز نے عام شہریوں کو اس لیے ہدف بنایا تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان ہوسکے۔

ان کے مطابق "ہندوستان جانتا ہے کہ ہماری فوج کے پاس دفاع کی مضبوط صلاحیت ہے اور اسے براہ راست نشانہ بنانے پر شدید نقصانات کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر عام شہریوں کے پاس کوئی تحفظ نہیں ہوتا اور وہ آسان ہدف ہوتے ہیں، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کا حل نکالے، دونوں اطراف کے عام لوگ بے بس ہیں"۔

تبصرے (0) بند ہیں