بیکہم فٹبالر نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟

03 ستمبر 2015
ڈویڈ بیکہم۔ فائل فوٹو اے ایف پی
ڈویڈ بیکہم۔ فائل فوٹو اے ایف پی

برطانیہ کے شہرہ آفاق فٹبالر ڈیوڈ صرف فٹبال ہی نہیں بلکہ جس میدان میں بھی انہوں نے قدم رکھا، اس میں کامیابی نے ان کے قدم چومے لیکن ان کی یہ تمام تر کامیابیاں فٹبال کی ہی مرہون منت ہیں جس نے انہیں ایک عالمی شہرتے یافتہ استار بنا دیا۔

اپنے نت نئے اسٹائلز اور ماڈلنگ سے بھی شائقین کے دل جیتنے والے انگلش فٹبال ٹیم کے سابق کپتان نے اپنے 20 سال سے زائد طویل کیریئر میں 115 میچوں میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔

تاہم ان کی فٹبال کی کامیابی کا بڑا سہرا فٹبال کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کو جاتا ہے جس کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ 394 بار میدان میں اترے اور اس دوران وہ چھ مرتبہ انگلش پریمیئر لیگ اور ایک بار یورپین چیمپیئنز لیگ جیتنے والی ٹیم کے رکن بنے۔

تاہم گزشتہ دنوں بیکہم نے بتایا کہ اگر وہ فٹبالر نہ ہوتے تو کیا ہوتے۔

گزشتہ رات انگلینڈ اور فٹبال کیلئے ان کی خدمات پر انہیں لیجنڈ آف فٹبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اس موقع پر انہوں نے انکشاف کیا کہ اگر وہ فٹبالر نہ ہوتے تو اپنے والد کی طرح گیس فٹر ہوتے۔

بیکہم نے کہا کہ میں نے جو کچھ حاصل یا اس پر بہت فخر ہے اور اس کا سہرا میرے والدین کے سر جاتا ہے جو اس وقت میری بہن کے ساتھ یہاں موجود ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ 2003 میں مانچسٹر یونائیٹڈ چھوڑ کر ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ آنے پر پہلے دن وہ بہت افسردہ اور ذہنی تناؤ کا شکار تھے۔

واضح رہے کہ سابق انگلش کپتان نے 1992 سے 2003 تک مانچسٹر یونائیٹڈ میں رہے تھے جس کے بعد وہ ریال میڈرڈ کا حصہ بن گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں