'توہین کے قانون پر تنقید توہین رسالت نہیں'

05 اکتوبر 2015
درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔۔۔ فائل فوٹو/رائٹرز
درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔۔۔ فائل فوٹو/رائٹرز

اسلام آباد: ممتاز قادری کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ توہین کے قانون پر تنقید کرنا توہین رسالت کے ذمرے میں نہیں آتا اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ مقتول سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب ہوئے بھی تھے یا نہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران بینچ نے ریمارکس دیے کہ ممتاز قادری کے وکیل جسٹس (ر) نذیر اختر نے اپنے موکل کی درخواست کے حق اور سزائے موت کے خلاف جو دلائل دیے غیر متعلقہ ہیں، جن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون پر تنقید توہین رسالت کے مترادف نہیں ہوسکتی جبکہ اخباروں میں شائع ہونے والی خبروں کی صورت میں جو ثبوت دیے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔

درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ ممتاز قادری کے وکیل کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے 2 بار سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قتل کے مقدمے میں سزائے موت کو برقرار جب کہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت دی جانے والی موت کی سزا کو کالعدم قرار دیا تھا۔

وفاق کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت سزائے موت کالعدم قرار دیے جانے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جب کہ ممتاز قادری نے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Ashian Ali Oct 05, 2015 07:02pm
اس پر ضرور بات ہونی چاہپیے ۔ ایک ایسا قانون ہے جس کے مطابق توہین کرنے والے شخص کے ادا کیے ہوئے کلمات مدعی مقدمہ کو تھانے میں درخواست دائر کرتے وقت تحریر کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرح محرر تھانہ ، گواہوں ، وکیللوں، ججوں، اور عدالتی عملہ کو توہین پر مبی الفاظ بار بار سننے ، تحریر کرنے اور بولنے پڑتے ہیں۔ یعنی کوئی شخص پاگل پن، غیر دانستہ یا حالت نشہ کسی بھی حالت میں توہین پر مبنی الفاظ بول دے تو یہ قانون باشعور لوگوں کو وہی الفاظ ٹائپ کرنے ، تحریر کرنے، بولنے اور سننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سلمان ٹاثیر کی طرف سے اس قانون پر تنقید کو مثبت انداز میں لینا چاہیے۔ اور قانون میں بہتری کے لیے تصور کرنا چاہیے۔ جبکہ اس قانون کے تحت توہین کا جھوٹا الزام لگانے والے کے خلاف اس سے بھی ذیادہ سنگین سزا تجویز کرنی چاہیے۔ تا کہ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکنے والے افراد کے ساتھ ذاتی تنازعات کے نتیجے میں توہیں رسالت یا توہین مذہب کے قانون کے تحت انتقامی کاروائی نہ کی جا سکے۔ جبکہ توہیں مذہب کے ملزموں کو الزام ثابت ہونے تک معاشرے میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے مساجد کی سطح پر مہم کا اہتمام کیا جائے۔