اپنے بچوں کو بھیڑیوں سے کیسے بچائیں؟

06 اکتوبر 2015
بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانا معاشرے کی ذمہ داری ہے مگر اس میں سب سے پہلا اور سب سے اہم کردار والدین کا ہی ہوتا ہے. — AP/File
بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانا معاشرے کی ذمہ داری ہے مگر اس میں سب سے پہلا اور سب سے اہم کردار والدین کا ہی ہوتا ہے. — AP/File

قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعے کو بچوں کے ساتھ پیش آنے والا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنسی اسکینڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ پوری قوم کو اس نکتے پر سوچنے پر بھی مجبور کر دیا ہے کہ کس طرح ہم من حیث القوم اپنی نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ، پر امن اور خوش حال بنا سکتے ہیں۔

بچوں اور والدین کے درمیان بہت زیادہ دوری نقصان دہ ہوتی ہے جبکہ والدین کا گھروں میں آمرانہ رویہ، بچوں کو نہ سمجھنا اور ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہ دینا انتہائی نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، اعتماد کی فضا قائم کریں، ان کے ساتھ ان کے پسندیدہ موضوعات کے حوالے سے باتیں شیئر کریں۔ ان کی باتوں کو غور سے سنیں اور انہیں یہ احساس دلائیں کہ آپ ان کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے روزانہ کے معمولاتِ زندگی کے حوالے سے دریافت کریں، اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کریں اور کوئی ایسی بات یا عادت جسے آپ بچے میں نہیں دیکھنا چاہتے اس بارے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ آپ بچے کو ڈرا دھمکا کر ایسی عادات ختم نہیں کر سکتے، بلکہ پیار محبّت سے ہی بچوں سے ایسی عادات چھڑوائی جا سکتی ہیں۔

یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ بچوں کو یہ سمجھائیں کہ آپ نے اسکول آتے جاتے، بازار یا کہیں اور جاتے ہوئے کس قسم کے لوگوں سے بات کرنی ہے اور کس قسم کے لوگوں سے بات نہیں کرنی ہے۔ انہیں بتائیں کہ ہمیشہ اپنے ہم عمر بچوں سے دوستی کریں، ان کے ساتھ کھیلیں کودیں اور اگر ان سے بڑی عمر کا لڑکا یا لڑکی دوستی کی آفر کریں تو فوراً اسے رد کر دیں۔

بچوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ اگر خدانخواستہ کوئی بھی اجنبی شخص انہیں کوئی ٹافی، تحفہ یا کوئی اور چیز دے تو ان سے ہر گز نہ لیں، اور ایسے لوگ کسی پارک، باغ یا کسی اور جگہ گھومنے کے بارے میں کہیں تو ان کے ساتھ مت جائیں۔ اگر ایسے لوگ کسی بھی جگہ آپ سے زبردستی کریں یا آپ کو اٹھا کر کہیں لے جانے کی کوشش کریں تو زور زور سے شور مچائیں اور مدد کے لیے پکاریں۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو اس حوالے سے مکمل اعتماد میں لیں کہ وہ دن میں کسی بھی اجنبی سے ملیں تو اس کا ذکر کھل کر آپ سے کریں۔ اپنے بچے کے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ یہ جسم آپ کا ہے اور اس پر صرف آپ کا حق ہے۔ انہیں پیار سے سمجھائیں کہ کوئی بھی اجنبی شخص آپ سے آپ کا نام، امی ابّو کا نام یا گھر کا پتہ پوچھیں تو ہرگز انہیں نہ بتائیں۔

بچوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر اسکول یا مدرسے سے چھٹی ہوتی ہے تو اپنے دیگر کلاس فیلوز کے ساتھ ہی وہاں سے نکلیں۔ اگر مدرسے کا مولوی یا اسکول کا ٹیچر آپ کو اکیلے میں مزید رہنے کا کہے تو انکار کر دیں اور گھر کی طرف نکلیں۔ آپ یہ یقین کر لیں کہ آپ کے بچے میں اتنی خود اعتمادی ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لئے کسی کو "نہیں" کہہ سکے۔ غلط بات پر انکار کرنا اور نا کہنا ہر بچے کا حق ہے۔

بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانا معاشرے کی دیگر اکائیوں کی بھی ذمہ داری ہے مگر اس میں سب سے پہلا اور سب سے اہم کردار والدین کا ہی ہوتا ہے، بچوں کا زیادہ تر وقت اپنے والدین کے ساتھ ہی گزرتا ہے، لہٰذا والدین جتنا بچوں کو اس حوالے سے تعلیم دیں گے، انھیں سمجھایئں گے، ہمارے بچوں کا مستقبل اتنا ہی محفوظ اور شاندار ہوگا.

تبصرے (1) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Oct 06, 2015 07:18pm
کر لو گل ! سارا زور بچوں کو اجنبیوں سے دور رکھنے پر لگا دیا گیا ہے اور سمجھ لیا گیا ہے کہ بچے سیکسوئل ابیوز سے بچ جائیں گے۔ حالانکہ سیکوسئل ابیوز جرم اجنبوں کی نسبت جاننے والے، رشتے دار، فرینڈز، محلہ دار ارتکاب کرتے ہیں۔ اجنبیوں سے دور کرنا بچوں کی سوشل لائف کو تباہ کر دے گا اور یوں بچے کا حلقہء یاراں نہیں بنے گا۔ والدین کا ہر وقت بچوں پر پہرہ دینے سے بچے خوداعتمادی سے دور ہو جائیں گے جو کہ ان کی شخصیت اور ترقی کے لیے لازم ہے۔ اس لیے بچوں میں سیکسوئل ابیوز کا خوف پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے اور انہیں باور کروانا چاہیے کہ جہاں پھول وہاں کانٹے۔ بچوں کو کھل کر رہنے کی آزادی دینی چاہیے اور والدین کو سپرویژن ایسے طریقے اور اس قدر کرنی چاہیے کہ بچہ یہ نہ سمجھے کہ ابا نہیں بلکہ تھانیدار اس کے سر پر بیٹھا ہوا ہے۔ بچے بہت نازک اور حساس ہوتے ہیں، اس لیے ان کے جذبات و احساسات کو سمجھے بغیر سپرویژن نہیں کرنی چاہیے۔