املاء کی غلطیاں کیسے فراڈ آسان بنا سکتی ہیں

26 نومبر 2015
جب ایک ہی شخص کئی مختلف ہجے استعمال کر کے جعلی دستاویزات لیے گھوم رہا ہو، تو فراڈ کا پتہ چلانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ — فائل۔
جب ایک ہی شخص کئی مختلف ہجے استعمال کر کے جعلی دستاویزات لیے گھوم رہا ہو، تو فراڈ کا پتہ چلانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔ — فائل۔

گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں، اس کی خوشبو اتنی ہی مسحور کن لگے گی۔ لیکن اگر اس کے ہجے تبدیل کر دیے جائیں، تو کیا تب بھی یہ خوشبو اتنی ہی مسحور کن رہے گی؟

تحریر میں املاء کی بہت اہمیت ہے اور ریکارڈ میں تو اس سے بھی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے، جہاں ناموں کے ہجے غلط لکھنا ایک قومی مشغلہ ہے۔

ہر جگہ ایک ہی لفظ کے مختلف ہجے معمول ہیں۔ لیکن ایک ہی شخص کے یا ایک ہی شہر کے ناموں کے مختلف ہجے غیر معمولی ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ ایک الگ ہی storey ہے۔

ہجے بھولنے کی ہماری بیماری سے میرا سامنا تب ہوا جب میں اپنے والد کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نکلوانے گیا۔ ان کا نام اعجاز تھا جس کے انگریزی ہجے Ajaz تھے۔ متعلقہ کلرکوں نے اپنی مرضی سے میرے والد کے نام کے ہجے تبدیل کیے۔ جو دستاویزات جاری کی گئیں، ان میں میرے والد کا نام Ijaz, Ejaz, Aijaz اور دیگر کئی ہجوں سے لکھا ہوا تھا۔

مثال کے طور پر ریٹیل بینکنگ فراڈ دیکھیں۔ ایک شخص ایک ہی نام کے کئی ہجوں، مثلاً Umar اور Umer سے جعلی دستاویزات بنوا سکتا ہے۔ جب نئی دستاویزات یا بینک اکاؤنٹ وغیرہ اردو میں موجود دستاویزات کے ذریعے کھلوایا جاتا ہے، تو درخواست گذار اپنے نام کے کوئی بھی انگریزی ہجے استعمال کر سکتا ہے۔

جب ایک ہی شخص کئی مختلف ہجے استعمال کر کے جعلی دستاویزات لیے گھوم رہا ہو، تو فراڈ کا پتہ چلانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے۔

میں نے پاکستانیوں کی ہجے کی غلطیوں پر اپنا نظریہ پرکھنے کا فیصلہ کیا۔ قسمت کی بات ہے کہ میرے ہاتھ ایک ایسا ڈیٹا سیٹ لگا جو کچھ عرصے کے لیے آن لائن دستیاب تھا۔ ڈیٹا سیٹ میں ان 15,176 فوجی اہلکاروں کے کوائف موجود تھے جنہوں نے فرض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں دی تھیں۔ ان کوائف میں جاں بحق ہونے والوں کے آبائی شہر بھی شامل تھے۔

ڈیٹا سیٹ کے فوری جائزے سے یہ معلوم ہوگیا کہ کیمبل پور کے ہجے پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھے، اسی لیے انہوں نے اس کا نام اٹک رکھا دیا کیونکہ قوم کو سر کولن کیمبل کے نام کے درست ہجے کرنے میں انتہائی مشکل درپیش تھی۔

میں نے اوپن ریفائن نامی سوفٹ ویئر کا استعمال کیا تاکہ ان شہروں کی فہرست ترتیب دی جا سکے جن کے ہجے غلط لکھے گئے ہیں۔ ڈیٹا سیٹ میں آبائی شہروں کی فہرست میں 450 شہر موجود تھے۔ جب میں نے کافی دیر تک طرح طرح کے الگوریتھم استعمال کر کے غلط ہجوں کی نشاندہی کی، تو آبائی شہروں کی تعداد صرف 204 رہ گئی۔ تصور کریں کہ ڈیٹابیس میں موجود ہر شہر کے دو مختلف ہجے تھے۔

اس بات سے حیرانی نہیں ہوئی کہ ہلاک ہونے والے سب سے زیادہ فوجیوں، 1393، کا آبائی شہر راولپنڈی تھا۔

فوجی مرکز کا یہ شہر بارانی ضلعوں کے درمیان میں واقع ہے جہاں زراعت کی کمی کی وجہ سے فوجی بھرتیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ راولپنڈی کے بعد آزاد جموں و کشمیر کا ایک چھوٹا شہر پونچھ تھا۔ اس ڈیٹا کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شہر کی آبادی کی بہ نسبت آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہلاک فوجیوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ لیکن یہ موضوع ایک اور بلاگ کا متقاضی ہے۔

جب ٹائپنگ کی غلطیوں کی بات آتی ہے، تو ایک اسمِ مرکب کے درمیان اسپیس کی موجودگی یا غیر موجودگی ایک بہت عام غلطی ہے۔ اس سے ایک ہی نام کے کئی روپ جنم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر Mirpur اور Mir Pur ایک ہی شہر کے دو عام ہجے ہیں جن میں سے صرف ایک درست ہے۔

ایک اور غلطی ایک جگہ مختصر نام استعمال کرنا اور دوسری جگہ نہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ڈی آئی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان ایک ہی شہر کے دو نام ہیں۔ اگر ڈیٹا سیٹ میں کسی جگہ نام مکمل لکھا ہے اور کسی جگہ مختصر، تو آپ کو ڈیٹا کا تجزیہ کرنے میں انتہائی مشکل پیش آ سکتی ہے۔

اور صرف پاکستانی ہی نہیں جو ہجے کی غلطیاں کرتے ہیں۔ میں کینیڈا کے شہر ٹورانٹو کے ایک مضافاتی شہر مسی ساگا (Mississauga) میں رہتا ہوں۔ شہر کے نام کے ہجے میں چار 's' ہیں۔ کئی لوگ اس میں الجھ کر الگ الگ ہجے کرتے ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہجوں کی غلطیاں آن لائن سیلز میں کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ایک آن لائن بزنس مین چارلس ڈنکومب نے ویب سائٹ سیلز کا جائزہ لیا اور پایا کہ "ہجوں کی ایک غلطی بھی آن لائن سیلز آدھی کر سکتی ہیں۔"

محققین نے ٹائپنگ کی غلطیوں اور ان کے معیشت پر اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔ مثال کے طور پر پروڈینشل انشورنس کمپنی کو مارگیج دستاویزات میں ایک ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے کروڑوں ڈالر نقصان کی نوبت آگئی تھی۔ اس کے علاوہ برطانوی اور امریکی ہجوں میں فرق کی وجہ سے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں جیسے کہ color بمقابلہ colour.

کیونکہ پاکستان میں زیادہ تر شہروں اور لوگوں کے نام انگریزی کے نام نہیں ہیں، اس لیے ایک ہی نام کے مختلف ہجے ہمیشہ رہیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی وجہ سے غلط فہمی جنم لے، اور ایسا تو بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ان سے منظم جرائم کا دروازہ کھلے جس میں شرپسند جان بوجھ کر غلط ہجے استعمال کر کے اپنے بچ نکلنے کی راہ ہموار کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Majid Ali Nov 26, 2015 06:48pm
There is nothing in the article about how fraud done using different spellig there are guessing in the article but noting Concetta.
avarah Nov 27, 2015 12:57am
THIS IS NOT SURPRISING AND NEW- PEOPLE LIKE TO WRITE THEIR NAMES AS THEY PRONOUNCE-- YOSEF AT THERAN IS JOZEF AT LONDON. YUNUS AT ISLAMABAD IS JONES AT BELGRAD. ISTANBUL AT TURKEY IS ISTAMBOL AT SAUDI ARABIA. ANKARA AT ISTANBUL IS ANGARA AT ANKARA. AHMED AT LAHORE IS AAKHMED AT MIANWALI. KHALID AT KARACHII IS KHALD AT BHAKKAR AND KHALED AT MAKKAH AND HALIT AT ANKARA. THE ENGLISH IS NOT SO SPECIAL LANGUAGE THAT SHOULD BE GIVEN SO MUCH IMPORTANCE. GRAMMAR SAYS THAT PROPER NOUNS COULD BE WRITTEN IN DIFFERENT WAYS. STANDARD IS ONE THAT WHO OWNS IT. ALL OTHER PEOPLE SPEEL IT AS PER THEIR EASINESS. MY MOTHER ALWAYS CALLED FLYING COACH AS FLENCH COACH. WHY ARE WE SO INSISTING. E.G. YOU WROTE جو دستاویزات جاری کی گئیں، ان میں میرے والد کا نام Ijaz, Ejaz, Aijaz اور دیگر کئی ہجوں سے لکھا ہوا تھا۔ WERE YOU CARELESS TO READ CORRECT NAME OF YOUR FATHER AS PER YOUR PRONOUNCIATION? WHY DID NOT U INSIST FOR CORRECTION? AND THE CORRECTION IS NOT BIG PROBLEM-CLERKS COPY THEY DO NO WRITE - NO BRAIN.
avarah Nov 27, 2015 01:00am
OPENREFINE HAS TO UPDATE ITSELF . THAT WILL TAKE TIMEاوپن ریفائن
حافظ Nov 27, 2015 03:13am
@Majid Ali Yes you are right. Author has some assumptions but could not put across any proof.