’آئیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کربات کریں‘، (ن) لیگ، پیپلزپارٹی کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش

26 اپريل 2024
سینیٹر عرفان صدیقی، شیری رحمٰن پی ٹی آئی ) کو مذاکرات کی پیش کش کی—فوٹو:ڈان نیوز
سینیٹر عرفان صدیقی، شیری رحمٰن پی ٹی آئی ) کو مذاکرات کی پیش کش کی—فوٹو:ڈان نیوز

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی ) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئیں ملک کے لیے حکومت کے ساتھ بیٹھیں اور بات کریں۔

یہ اہم پیش رفت چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ملک کے ایوان بالا کے ہونے والے اجلاس کے دوران سامنے آئی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سینیٹر عرفان صدیقی نے واضح کیا یہ (پی ٹی آئی رہنما) جب محمود خان اچکزئی کو صدر کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر سکتے ہیں، احتجاج کے لیے ان کے ساتھ (جمیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن) بیٹھ رہے ہیں جن کا نام لینا انھیں گوارا نہیں تھا، انہیں چاہیے کہ اب ملک کے لیے آئیں، بیٹھیں اور حکومت سے مذاکرات کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ ہم مفاہمت کس سے کریں جب سامنے والے کے ہاتھ جیب میں ہوں؟ تحریک انصاف محمود اچکزئی سے ہاتھ ملاسکتی ہے تو ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری ساتھ زیادتی ہوئی تو دوسروں کے ساتھ بھی ہوتی رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہم فارم 45 اور فارم 47 میں الجھے ہوئے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے کیسے بیانات دیے جا رہے ہیں؟

اس موقع پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا رویہ بدلیں، مخالفین کو چور، ڈاکو کہنا چھوڑیں اور پارلیمان و جمہوریت کی توقیر کے لیے ایوان میں مل کر کام کریں۔

سینیٹر شیری رحمن نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ آصف زرداری نے جو کہا ہے اسے خوش آمدید کہنا چاہیے، آصف زرداری نے سب کو دعوت دی ہے، انہوں نے تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی یا کسی ایک جماعت نہیں بلکہ تمام جماعتوں کو دعوت دی ہے، آصف زرداری نے کہا کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی نے بتایا کہ آصف زرداری نے جو کہا اس پر عمل کرنا چاہیے، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ قربانی ضرور دی ہے لیکن ملک کے وقار کو نیچا نہیں دکھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ چور ڈاکو چھوڑ دیں، پاکستان میں کون سے الیکشن ہیں جو شفاف ہوے؟ ہم نے گزشتہ الیکشن کو آر او الیکشن قرار دیا تھا، ہم نے پچاس سے زائد درخواستیں دائر کی ہیں، صرف بیانیہ بنانے سے ملک آگے نہیں بڑھتا، راستے موجود ہیں آئیں مل کر آگے بڑھتے ہیں تو راستے مل جائیں گے۔

مذاکرات کی پیشکش کا جواب میں سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ 2 سالوں میں قانون سازی کو بلڈوز کیا گیا، نہ بحث کرائی گئی نہ بلز پڑھنے دیے گئے، ہمیں جہالت اور انتہا پسندی کے خلاف لڑنا ہے، ہمیں انہی 2 مسائل کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کےخلاف انتقام کی انتہا کردی گئی، پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں، وکلا کو پیش نہیں ہونے دیا گیا،جیل میں ٹرائل ہوا اور 15 روز میں سزائیں دی گئیں، پی ٹی آئی کے ساتھ بدترین سیاسی انتقام لیا گیا، پی ٹی آئی سے مخصوص نشستیں چھین لی گئیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ قانونی چھوڑیں سیاسی طور پر دیکھیں تو کیا ایک بڑی جماعت کو مخصوص نشستیں نہیں ملنی چاہیے؟ الیکشن کمیشن چاہتا ہے پی ٹی آئی سیاسی عمل سے باہر نکل جائے، 3 بار انٹرا پارٹی الیکشنز کرائے اب پھر الیکشن کمیشن نے اعتراض کردیا، سیاسی انتقام جاری رہا تو ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا پاکستان کے لیے کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن پہلے مذاکرات کے لیے ماحول بنایا جائے، پہلے سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں۔

بعد ازاں صدر مملکت کی جانب سے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی مصدقہ نقل ایوان میں پیش کردی گئی، مصدقہ نقول سینیٹر اعظم نزیر تارڑ نے پیش کی۔

تبصرے (0) بند ہیں