اسلام آباد: ہندو میرج بل کی ایک شق کے مطابق ہندو میاں بیوی میں سے کسی ایک فرد کے مذہب تبدیل کرلینے سے ان کے درمیان شادی منسوخ ہوجائے گی جس نے مذکورہ بل کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں میں لفظوں کی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔

تاہم اس تنازع کے حل کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کی چیئرمین سینیٹر نسرین جلیل نے مذکورہ مسئلے پر بات چیت کیلئے کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ بل کا ڈرافٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف نے گزشتہ دنوں منظور کیا تھا۔

سینٹر نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ 'ہم اس مسئلے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور اگر اس مسئلے پر اتفاق رائے قائم ہوگیا تو کمیٹی قومی اسمبلی کے اسپیکر کو مذکورہ شق ختم کرنے کیلئے تجاویز بھیجے گی'۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی کے 8 فروری کو ہونے والے اجلاس میں مذکورہ شق کو ختم کرنے کے حوالے سے جمعیت علماء اسلام ف کے رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی جانب سے سخت مخالفت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی شگفتہ جمانی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے علی محمد نے واضح طور پر کہا کہ اگر ہندو جوڑے میں سے کوئی بھی ایک فرد اسلام قبول کرلے گا تو شادی منسوخ ہوجائے گی۔

پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ اور مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر کمار وانکوانی کا کہنا تھا کہ مذکورہ مسئلہ پاکستان میں موجود ہندوؤں کے بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ خوف موجود ہے کہ بل کی مذکورہ شق شادی شدہ خواتین کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کیلئے غلط طور پر استعمال کی جائے گی جیسا کہ نوجوان لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے'۔

انھوں نے کچھ عناصر کی جانب سے کیے جانے والے حالیہ اقدامات کا حوالہ دیا جو کہ نو عمر ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا کرتے ہیں اور بعد ازاں ان کو ایک سرٹیفیکیٹ کے ساتھ عدالت میں پیش کردیتے ہیں کہ لڑکی نے اسلام کو مذہب کے طور پر اختیار کرنے کے بعد شادی کرلی ہے۔

پی پی پی پارلیمنٹرین کے سینیٹر تاج حیدر نے مزکوہ خیال کی مخالفت کی ہے۔

انھوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ 'میں نہیں سمجھ سکتا کہ جوڑے میں سے کسی ایک بھی فرد کے اسلام قبول کرلینے سے شادی کیسے منسوخ ہوجائے گی'۔

سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ اس شق سے مخالف مذاہب میں شادی کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

آر ای اے ٹی نیٹ ورک کے چیئرمین اور سول سوسائٹی کے سرگرم رکن کشن شرما کا کہنا تھا کہ مذکورہ شق بل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے شامل کی گئی ہے کیونکہ یہ اصل مسودے کا حصہ نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ 'تشویش کا باعث یہ بات ہے کہ شادی کے منسوخ کرنے کی صرف ایک شق کو بل کا حصہ بنایا گیا ہے اور جہاں دونوں مختلف مذاہب اختیار کرنے والے ایک ساتھ رہنے کیلئے راضی ہوسکتے ہیں'۔

کشن شرما کا مزید کہنا تھا کہ 'جیسے سوسائیٹی تبدیل ہورہی ہے، انفرادی رویوں میں تبدیلی آرہی ہے اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہندو، مسلمان اور عیسائی کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کررہے ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ 'اسے قانون کے ذریعے سے روکنا معاشرے میں عدم اطمینان اور مایوسی پیدا کرے گا'۔

یہ خبر 14 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں