ایک دور تھا جب پی آئی اے ہمارے لیے باعث مسرت اور ہمارا فخر تھی۔ ہماری قومی پہچان تھی اور ملک کا قیمتی سرمایہ تھی۔

کامیابی کا وہ دور 1960 کی دہائی میں کمانڈر نور خان کی مثالی قیادت میں شروع ہوا۔

''سفر کرنے کے لیے بہترین لوگ'' جیسا دلکش نعرہ اور مردوں اور خواتین اسٹیورڈز کے لیے مشہور پیئر کارڈن یونیفارمز یقیناً پی آئی اے کی غیر معمولی اور متاثر کن ترقی کے ثبوت تھے۔

1961 میں پی آئی اے کی ایک پرواز کا عملہ. 1980 کی دہائی میں پی آئی اے کا زوال شروع ہوا جو آج تک جاری ہے.
1961 میں پی آئی اے کی ایک پرواز کا عملہ. 1980 کی دہائی میں پی آئی اے کا زوال شروع ہوا جو آج تک جاری ہے.

ایئر لائن کا زبردست حفاظتی معیار، نئے جہاز اور وقت کی پابندی اس ایئر لائن کو بلندیوں پر لے گئی۔ سب کچھ بہترین تھا۔

آج وہی شاندار ایئرلائن شدید بحران کا شکار ہے؛ اسے بے پناہ خساروں، شدید نااہلی اور ناقابل برداشت قرضوں نے مفلوج کردیا ہے۔

حالیہ نجکاری کے معاملے پر ایئر لائن کے ملازمین نے فلائیٹ آپریشن معطل کر دیا جس سے ہزاروں مسافروں کو سخت مشکلات اور زحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

ایسی ہڑتال پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ دیکھی گئی نہ سنی گئی۔

اتنا شاندار ماضی رکھنے والی ایئر لائن کو درپیش حالیہ بحران سے یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہوا اور اس کا حل کیا ہونا چاہیے؟

پڑھیے: پی آئی اے کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟

پی آئی اے کی موجودہ حالت زار سے میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ وہی پی آئی اے ہے جس نے مشرق وسطیٰ کی بہترین ایئر لائن ''امارات'' کو تشکیل دینے میں مدد فراہم کی تھی، جسے اسکائی ٹریکس 2015 کی جانب سے دنیا کی بہترین ایئرلائن ہونے کا اعزاز دیا گیا۔

جہاں امارات کامیابیوں کے افق پر پہنچ چکی ہے تو وہیں پی آئی اے مسلسل زوال سے اپنی شناخت کھو بیٹھی ہے۔

پی آئی اے کا مقدمہ شاید باہر والوں کے لیے تو معمہ ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی مقامی سیاسی اور معاشرتی محرکات سے واقف ہے، تو ان کے لیے اس کی وجہ بہت جلدی واضح ہو جائے گی۔ عام طور پر نقاد گرتے ہوئے منافع، ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور بین الاقوامی مقابلے کو پی آئی اے کے بے تحاشہ مالی خساروں کی وجوہات بتاتے ہیں۔

لیکن میری تشخیص کے مطابق بحران کی اصل اور واحد جڑ سیاست ہے۔

اس سے پہلے کہ میں اپنی تشخیص کی وجوہات بتاؤں، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اوپر دی گئی وجوہات بحران کی ذمہ دار کیوں نہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ پچھلے سال عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی آئی، جس سے منافعوں کے بے مثال مواقع پیدا ہوئے۔

پی آئی کیوں ایسے تاریخی موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکی؟

اور جہاں تک غیر ملکی ایئرلائنز سے مقابلے کی بات ہے، تو زیادہ تر لوگوں کا غیر ملکی ایئر لائنز کو منتخب کرنے کی وجہ ان کی پیش کردہ بے انتہا معیاری سروس ہے۔ اگر پی آئی اے اپنی معیاری سروس کو برقرار رکھتی تو دوسری ایئر لائنز کو زیادہ منافع کمانے کا موقع نہ ملتا۔

غیر ملکی ایئر لائنز کو الزام دینا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں موجود ہر بحران کا ذمہ دار غیر ملکی مداخلت کو قرار دیا جاتا ہے۔ اب ہمارے پاس سیاست اور مخصوص مفادات کا سوال بچ جاتا ہے۔

میرے خیال سے پی آئی اے پاکستان کی سیاست کا ایک بہترین اڈہ ہے، جو بدعنوانی اور اقربا پروری کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: پی آئی اے بحران: ملازمین ذمہ دار؟

عام طور پر پاکستان کے قومی ادارے نااہلی اور بدعنوانی میں جکڑے رہتے ہیں اور پی آئی اے اس کی واضح مثال ہے۔

بھرتی پالیسی میں اقرباء پروری اور سیاسی سرپرستی کا واضح دخل ہونے کی وجہ سے ایئر لائن تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو اس تباہ کن روایت سے منسلک کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے دیہی علاقوں سے نئی بھرتیوں کی حمایت کی۔

ان سیاسی بھرتیوں کا تسلسل دوسری جماعتوں کے ادوار حکومت میں بھی جاری رہا۔ جب بھی حکومت تبدیل ہوتی، چاہے پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی آئے یا پیپلز پارٹی کی، پی آئی اے کی اعلیٰ انتظامیہ میں بھی تبدیل ہوجاتی۔ جب پنجاب میں اکثریت رکھنے والی پارٹی اقتدار میں آتی تو پی آئی اے میں پنجابی ہر جگہ امڈ آتے اور جب پیپلز پارٹی کو حکومت ملتی تو سندھی آجاتے۔ سیاست اور بیوروکریسی ایئر لائن کو نگل چکی ہے اور اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔

اور یہی پی آئی اے کو دنیا کی سب سے زیادہ غیر ضروری عملے کی حامل ایئرلائن بنانے کے ذمہ دار ہیں، جو کہ نااہلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اپنے مفادات کے خاطر اپنے احباب کو عہدوں پر ترقی دینے کے تنگ نظر عمل کی وجہ سے یہ ایئر لائن مؤثر انتظامیہ اور پیشہ وارانہ قیادت سے محروم ہوگئی۔ پی آئی اے وہ ایئر لائن بن گئی جہاں نااہلی نے اپنا ڈیرہ جمائے رکھا ہے۔

گذشتہ سالوں میں ایئرلائن کی بحالی پالیسی سازوں کے لیے ایک متنازع چیلنج رہا ہے۔ بہت سی حکومتوں نے قومی ایئر لائن میں اصلاح کے وعدے کیے لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔

جب سے مسلم لیگ ن حکومت میں آئی ہے، پی آئی اے کی بحالی اس کا اولین ایجنڈا رہا ہے اور اس کے نزدیک نجکاری اس مسئلے کا واحد حل ہے۔

نجکاری پر زور اخراجات میں کمی کی آئی ایم ایف کی بدنام زمانہ پالیسی تجاویز کا حصہ ہیں جن کا ہمارے سیاستدان گرم جوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں اور اکثر اندھا اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔

پر کیا نجکاری صحیح جواب ہے؟

شاید ہاں یا شاید نہیں بھی۔ بطور ایک ماہر بشریات، میرا ماننا ہے کہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے اس کی جڑ کی نشاندہی اور اس کا علاج ضروری ہے۔

بدقسمتی سے ماضی میں کسی بھی حکومت نے یہ طریقہ اپنانے کے سیاسی عزم کا اظہار نہیں کیا۔

پی آئی اے کو بھی پاکستان کے دوسرے اداروں کی طرح انتظامی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس کی انتظامیہ میں شدید تبدیلی کی ضرورت ہے۔

سیاسی اور من پسند بنیادوں پر مقرر ملازمین کو نکالنے کی ضرورت ہے جو کہ ایئر لائن کی افرادی قوت کا غیر متناسب حصہ ہیں۔ بحالی کے لیے سیاست سے آزادی اور میرٹ کی بالادستی انتہائی اہم ہیں۔

پالیسی سازوں کو ایمانداری اور سنجیدگی سے ان بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ نجکاری جیسی تباہ کن بحث میں پڑا جائے۔

دلیرانہ اور فیصلہ کن اقدام کا یہی وقت ہے۔

ہمیں پی آئی اے کو فی الوقت اپنی غرض اور بیرونی دباؤ سے بالاتر رکھنا ہوگا کیونکہ ہم سب چاہتے ہیں کہ پی آئی اے ایک بار پھر آسمانوں پر راج کرے۔

بنیادی چیزوں کو درست کر کے، اور خود سے ہوئی غلطیوں کی نشاندہی کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، یہی منطقی راستہ ہے۔

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (1) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 14, 2016 08:49pm
گورنمنٹ اداروں کی تباہی کا ذمہ دار ملازمین کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر ملازمین کام نہیں کرتے، آفس سے کھسک جاتے ہیں، چھٹیاں کرتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ انتظامیہ کی نااہلی ہے کہ وہ کیوں ایسے ملازمین کے خلاف ایکشن نہیں لیتی، شوکاز نوٹس نہیں دیتی، سزائیں کیوں نہیں دیتی، ای اینڈ ڈی رولز انی سو تہتر اور سپیشل پاورز آرڈنینس کو بروئے عمل کیوں نہیں لاتی۔ جب انتظامیہ کی نااہلی ثابت ہو جاتی ہے تو پھر ان اداروں کی نااہلی بھی سامنے آتی ہے جو آفیسرز بھرتی کرتے ہیں بذریعہ تحریری امتحان اور انٹرویو۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ خسارہ میں اگر جاتا ہے تو وہ ادارے کی افسرشاہی کی بدولت جاتا ہے۔ یہ افسر شاہی سارے فنڈز ھڑپ کر جاتی ہے اور ملازمین اپنا حق اڈیکتے ہی رہتے ہیں۔ افسر شاہی کے اخراجات کچھ نہیں ہیں بلکہ سب کچھ شاہانیت دکھانے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، انٹرٹینمنٹ الاؤنس کے تلے کروڑوں روپیہ ھڑپ کر لیتے ہیں اور ڈکار تک نہیں مارتے۔ نجکاری حل نہیں ہے بلکہ پی آئی اے کے سکیل سترہ سے اوپر کے تمام افسران کو فارغ کیا جائے اور نیک افسران بھرتی کر کے چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔