اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ پاناما لیکس میں جتنے نام آئے ہیں سب کا احتساب ہوگا لیکن آغاز وزیراعظم نواز شریف سے ہو۔

اسلام آباد میں معاملے پر حزب اختلاف کی نو جماعتوں کے اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) شاہ محمود قریشی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پانامالیکس سامنے آنے کے بعد ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔



پاناما لیکس میں جتنے نام آئے ہیں سب کا احتساب ہوگا لیکن آغاز وزیراعظم سے ہو۔

قمر زمان کائرہ

مزید پڑھیں: 'میاں صاحب کرپشن ثابت ہوئی تو آپ گھر نہیں جیل جائیں گے'

'وزیراعظم ملک کے سربراہ ہیں، چیف ایگزیکیٹیو ہیں، لہٰذا ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے۔ ہم نے اپوزیشن کی جماعتوں کے لیے کوئی راستہ نہیں نکالا، ہم نے کہا ہے کہ تمام افراد کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اس کا آغاز وزیراعظم سے ہو کیوں کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکیٹیو ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ حکومتی ٹی او آر موجودہ شکل میں قابل قبول نہیں، کل اپوزیشن کا دوبارہ اجلاس ہوگا جس میں ہر جماعت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی۔

اپوزیشن رہنما میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں—ڈان نیوز۔
اپوزیشن رہنما میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں—ڈان نیوز۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق تحقیقات کا آغاز وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سے ہو اور اپوزیشن کی مشاورت سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے قانون سازی کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کاسندھ میں انسدادکرپشن تحریک کااعلان

ٹی او آرز کو حتمی شکل دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس کل دوبارہ طلب کر لیا گیا ہے۔

متحدہ کا بھی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی پاکستان اورلندن ہنگامی اجلاس میں کہا گیا کہ پانامہ لیکس سے پیدا ہونیوالے بحران نے نہ صرف پوری قوم میں ہلچل پیداکردی ہے بلکہ اس مسئلہ پر قوم کو تقسیم درتقسیم کردیا ہے ۔

رابطہ کمیٹی نے کہاکہ نوازشریف کا یہ اقدام خوش آئند ہے کہ انہوں نے پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے لیکن اگراس حوالے سے تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم اپنے عہدے پرفائز رہیں گے تو ان کے سیاسی مخالفین تحقیقات کی شفافیت، غیرجانبداری اور نتائج پر بھی سوال اٹھائیں گے۔

رابطہ کمیٹی نے ایک اعلامیے میں کہا کہ عقل ودانش کا تقاضہ ہے کہ جب تک پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتیں وزیراعظم نوازشریف بڑے پن کامظاہرہ کرتے ہوئے ازخود استعفیٰ دے کر ملک کو پاناما لیکس سے پیداہونے والی بحرانی صورتحال سے باہرنکالیں اور آگے کا سفر طے کرنے میں قوم کی مدد کریں۔

پاناما لیکس

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہو گئے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

مزید جانیں: پاناما لیکس: نیب سے تحقیقات کا مطالبہ

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے International Consortium of Investigative Journalists کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imran May 03, 2016 02:37pm
یہ تمام سیاسی پارٹیوں کا بالکل وہی کھیل ہے جو پچھلے پانچ سال زرداری صاحب کی حکومت میں کھیلا گیا تھا عدلیہ ، پارلیمنٹ اور فوج والا ۔ آج سو موٹو ایکشن لے لیا ۔ گیلانی عدالت کے کٹہرے میں اور فلاں فلاں غر ض عوام کو کچھ نظر آتا رہے کہ کو ئی تبدیلی آنے والی ہے اور مظلوم کی آس بندھی رہے کہ کچھ ہونے والا ہے جبکہ اصل میں پانچ سال پورے کرنے ہیں اور ہونے تو کچھ بھی نہیں لگا۔بیچاری عوام۔