اسلام آباد: سینیٹر فرحت اللہ بابر نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کارکن اور رہنما فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر آفتاب احمد کے زیرحراست قتل پر سینیٹ میں تحریک التوا جمع کرادی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ زیرحراست افرادکے قتل کے ایسے واقعات بلوچستان میں بھی ہوئےہیں۔

مزید پڑھیں: آفتاب احمد پر دورانٍ حراست تشدد کی تصدیق

انہوں نے کہا کہ زیرحراست افراد پر تشدد کے خلاف جلد ازجلد قانون سازی ہونی چاہیے ۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیر معمولی اختیارات پر نظر رکھنی چاہیے۔

فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ رینجرز اور ڈاکٹرز کے متضاد بیانات کے بعد غیرجانبدارانہ عدالتی تحقیقات کرائی جائیں ۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایکٹ1997کے تحت کسی شخص کو 90روزحراست میں رکھنے کی شق پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی رینجرز کا ایم کیو ایم کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف

دوسری جانب پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں آفتاب احمد پر دوران حراست تشدد اور ان کی موت کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔

آفتاب احمد کی موت

آفتاب احمد کو چار روز قبل اتوار کو رینجرز نے کراچی سے حراست میں لیا تھا اور پیر کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرکے دہشت گردی کے الزامات کے تحت 90 روز کا ریمانڈ حاصل کیا تھا۔

منگل کو صبح سویرے آفتاب احمد کو کراچی کے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج انتقال کر گئے تھے۔

آج جاری ہونے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متحدہ کارکن پر تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ آفتاب احمد کے جسم کے 35 سے 40 فیصد حصے پر زخموں کے نشانات موجود ہیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ آفتاب احمد کے الٹے پاؤں کا ناخن بھی آدھا اکھڑا ہوا تھاجبکہ جسم کے مختلف حصوں پر خراشیں اور نیل کے نشانات پائے گئے۔

اس سے قبل ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا تھا کہ آفتاب احمد رینجرز کی حراست میں ہلاک ہوئے جبکہ رینجرز کا موقف تھا کہ انہیں سینے میں تکلیف کے بعد ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہ دوران علاج چل بسے۔

سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بلال اکبر نے ایم کیو ایم کارکن پر دوران حراست تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے موت کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی تھی۔

رینجرز کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی رینجرز کے سیکٹر کمانڈر ہوں گے۔

تحقیقاتی کمیٹی کے سیکٹر کمانڈر کو جلد از جلد تحقیقات مکمل کرکے حقائق سامنے لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

رینجرز کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کتنے اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے جبکہ یہ بھی سامنے نہ آسکا کہ معطل ہونے والے اہلکاروں میں صرف سپاہی شامل ہیں یا کسی اعلیٰ افسر کو بھی معطل کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم کارکن آفتاب احمد کی زیر گردش مبینہ تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی تھیں، جس میں ان کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔

آفتاب احمد کی ہلاکت کے خلاف ایم کیو ایم کی جانب سے گزشتہ روز یوم سوگ بھی منایا گیا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad khan May 06, 2016 12:04am
فرحت الله بابر اپکی بات درست ھے جوڈیشل انکوئری ھونی چاہئے چونکہ سندھ میں اپ ہی حکومت ھے اسلئے کمیشن بنانا حکومت سندھ کی زمہ داری بنتی ھے