کراچی: انگلینڈ کے انٹرنیشنل گراؤنڈز میں مانچسٹر کے اولڈ ٹریفورڈ کو کرکٹ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔1956 میں اسی گراؤنڈ پر انگلش آف اسپنر جم لیکر نے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں حریف ٹیم کی 20 میں سے 19 وکٹیں اپنے نام کی تھیں۔ جم لیکر نے میچ میں 90 رنز کے عوض 19 وکٹیں لی تھیں جو اب تک فرسٹ کلاس کرکٹ کی تاریخ میں بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ ہے۔

لیکر کے بعد ہندوستان کے انیل کمبلے واحد باؤلر ہیں جنہیں ایک اننگز میں دس وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل ہے لیکن وہ بھی انگلش اسپنر کی عمدہ باؤلنگ کے قریب نہ پہنچ سکے جنہوں نے آج سے تقریباً 60 سال قبل آسٹریلیا کے خلاف پہلی اننگ میں نو اور دوسری میں دس وکٹیں حاصل کی تھیں جس کی بدولت انگلینڈ نے میچ میں ایک اننگ اور 170 رنز کے بھاری مارجن سے فتح حاصل کی تھی۔

پاکستان اور انگلینڈ آج سے اولڈ ٹریفورڈ میں دوسرے ٹیسٹ کیلئے مدمقابل ہیں تو ایسے موقع پر دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک اس گراؤنڈ پر کھیلے گئے پانچ ٹیسٹ میچوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

1884 سے اب تک لنکاشائر کاؤنٹی کا ہوم گراؤنڈ تصور کیے جانے والا اولڈ ٹریفورڈ 76 ٹیسٹ میچوں کی میزبانی کر چکا ہےجن میں 1912 میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جانے والا نیوٹرل میچ بھی شامل ہے، ان تمام میچوں میں سے 41 نتیجہ خیز رہے۔

75 ٹیسٹ میچوں میں سے 26 میں انگلینڈ فاتح رہا، 14 میں شکست ہوئی جبکہ بقیہ 35 ٹیسٹ میچ ڈرا ہوئے۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اب تک پانچ ٹیسٹ میچ کھیلے گئے جس میں دونوں نے ایک ایک میچ جیتا جبکہ تین میچ ڈرا ہوئے۔

1954 میں پہلی مرتبہ انگلینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم اولڈ ٹریفورڈ پر پہلی مرتبہ میدان میں اتری اور یہ میچ بھی انہی تاریخوں میں کھیلا گیا تھا جس میں دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا ہے لیکن 1954 میں کھیلے گئے سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو فالو آن ہونے کے باوجود میچ ڈرا پر ختم ہوا تھا کیونکہ دوسرے، چوتھے اور پانچویں دن کا کھیل بارش کی نذر ہونے کے سبب مجموعی طور پر صرف 11 گھنٹے کا کھیل ہو سکا تھا۔

اس کے بعد دونوں ٹیمیں اس میدان پر 33 سال بعد جون 1987 میں پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے معرکہ آرا ہوئیں۔ ایک مرتبہ بارش نے میچ میں مداخلت کردی اور آدھے میچ کیلئے کھلاڑیوں کو پویلین میں بیٹھنا پڑا۔ پہلے دن کھیل بارش کے سبب دو بج کر 45 منٹ پر شروع ہوا اور پورے میچ میں صرف 15 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔

اس میچ کا واحد قابل ذکر پہلو متبادل امپائر کی میچ میں تقرری تھی جنہوں نے ڈکی برڈ کی جگہ لی تھی جو میچ کے دوسرے دن فیلڈر کی تیز تھرو پیر پر لگنے کے سبب بقیہ میچ میں امپائرنگ نہیں کر سکے تھے۔

تاہم 1992 کی پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا تیسرا میچ اس گراؤنڈ پر عامر سہیل کی ڈبل سنچری کی بدولت یادگار بن گیا، یہ اس گراؤنڈ پر اسکور کی جانے والی آخری ڈبل سنچری تھی جہاں سب سے بڑے انفردی اسکور کا ریکارڈ بابی سمپسن کے پاس ہے جنہوں نے 1964 کی ایشز سیریز میں اولڈ ٹریفورڈ پر 311 رنز کی عمدہ اننگز تراشی تھی۔

عامر سہیل نے 32 باؤنڈریز کی مدد سے 284 گیندوں پر 205 رنز کی اننگز کھیلی تھی جس کی بدولت پاکستان نے پہلے دن تین وکٹ پر 388 رنز اسکور کرتے ہوئے 505 رنز نو کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کردی تھی۔

میچ کا دوسر ادن بارش کی نذر ہو گیا تھا جس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم 390 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئیں تاہم یہ میچ اس وقت تنازع کا شکار ہو گیا تھا جب پاکستانی فاسٹ باؤلر عاقب کی جانب سے گیارہویں نمبر کے انگلش بلے باز ڈیون میلکم کو باؤنسر کرانے پر امپائر رائے پالمر سے ان کی تلخ کلامی ہوئی تھی اور انہیں اپنی 50فیصد میچ فیس سے محروم ہونا پڑا تھا۔

نو سال بعد 2001 میں بالآخر پاکستان اس گراؤنڈ پر پہلی فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہا جہاں اس سنسنی خیز میچ میں انگلینڈ نے میچ کے آخری دن کے آخری سیشن میں آٹھ وکٹیں گنوائیں اور پاکستان نے 108 رنز سے فتح اپنے نام کی۔

اس میچ کے ہیرو پاکستان کے مستقبل کے کپتان اور مایہ ناز بلے باز انضمام الحق تھے جن کے 114 رنز کی بدولت پاکستان نے پہلی اننگز میں 403 رنز بنائے۔

جواب میں 120 رنز بنانے والے مائیکل وان اور 138 کی اننگز کھیلنے والے گراہم تھارپ نے تیسری وکٹ کے لیے 267 رنز کی عمدہ شراکت بنائی لیکن اس کے باوجود پوری ٹیم 357 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور پاکستان نے 46 رنز کی برتری حاصل کی۔

دوسری اننگز میں ایک مرتبہ پھر انضمام نے مرد بحران کا کردار ادا کرتے ہوئے 85 رنز بنائے جس کی بدولت گرین شرٹس نے 323 رنز بنا کر حریف کو 370 رنز کا ہدف دیا۔

ہدف کے تعاقب میں انگلش اوپنرز مائیکل ایتھرٹن اور مارکس ٹریسکوتھک نے اپنی ٹیم کو 146 رنز کا عمدہ آغاز فراہم کیا جس کی بدولت ٹیم ایک موقع پر دو وکٹ کے نقصان پر 201 رنز بنا چکی تھی۔

تاہم اس کے بعد انگلش بیٹنگ لائن بدترین تباہی سے دوچار ہوئی اور 22 اوورز کے دورانیے میں 60 رنز کے اضافے کے ساتھ پوری بیٹنگ لائن 261 رنز پر سمٹ گئی۔

اس میں سے چار آؤٹ امپائر ڈیوڈ شیفرڈ اور ایڈی نکولس کی مرہون منت تھے جو نوبال دیکھنے میں ناکام رہے تھے۔

تاہم پانچ سال بعد انگلینڈ نے اس شکست کا خطرناک انداز میں بدلہ لیا تھا جب اسٹیو ہارمیسن نے تباہ کن باؤلنگ کرتے ہوئے میچ میں 76 رنز کے عوض گیارہ وکٹیں حاصل کی تھیں اور قومی ٹیم میچ کے چوتھے روز اننگز اور 120 رنز سے میچ ہار گئی تھی۔

قومی ٹیم نے 2006 میں کھیلے گئے اس ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں بالترتیب 119 اور 222 رنز بنائے تھے جو یونس خان کے 44 اور 62 رنز کے مرہون منت تھے۔

اس میچ میں انگلینڈ کے موجودہ کپتان نے تیسرے نمبر پر کھیلتے ہوئے 127 رنز بنائے تھے اور پاکستان کے یونس خان کی طرح وہ 2016 میں واحد کھلاڑی ہیں جو 2006 ٹیسٹ میں بھی موجود تھے۔

اس میچ میں ایلسٹر کک اور مصباح الحق دونوں ہی بحیثیت کپتان 22ویں فتح حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جہاں انگلش کپتان 50ویں میچ میں انگلش ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے اینڈریو اسٹراس کا ریکارڈ برابر کر چکے ہیں جہاں سب سے زیادہ میچوں میں انگلینڈ کی قیادت کا اعزاز ایتھرٹن کے پاس ہے جنہوں نے 54 میچوں میں قیادت کی۔ دوسری جانب مصباح اس اعزاز سے پانچ میچ پیچھے ہیں جہاں عمران خان کو سب سے زیادہ 48 میچوں میں پاکستان کی قیادت کا اعزاز حاصل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں