اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے ترقی ومنصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ہندوستانی سازشوں کے باوجود پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی مالیت 46 ارب ڈالر سے بڑھ کر 51 ارب 50 کروڑ ڈالر ہوچکی ہے۔

احسن اقبال نے چین کے دورے سے واپسی پر ایک نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ چین اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی جانب سے کراچی تا پشاور مرکزی ریلوے لائن کی اَپ گریڈیشن کے لیے 8 ارب ڈالر مزید فراہم کرنے کی رضامندی کے بعد سی پیک منصوبے کی مالیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔

احسن اقبال نے بتایا کہ چین نے پاکستان کو کراچی تا لاہور مرکزی ریلوے لائن (ایم ایل 1) کی اَپ گریڈیشن اور توسیع کے لیے 5 ارب 50 کروڑ ڈالر کا رعایتی قرضہ دینے پر اتفاق کیا ہے، ساتھ ہی ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی لاہور تا پشاور ریلوے ٹریک کے لیے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

احسن اقبال نے بتایا کہ، 'دونوں قرضوں پر 2 فیصد سے کم شرح سود لیا جائے گا'، تاہم انھوں نے قرض پروگرام کی تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ 'اقتصادی امور ڈویژن فی الوقت شرائط و ضوابط کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔'

مزید پڑھیں:سی پیک: سیکیورٹی اخراجات کا بوجھ عوام پر ڈالنے کا منصوبہ

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 46 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبے میں 3 ارب 56 کروڑ ڈالر کی رقم ریلوے نیٹ ورک کے لیے مختص کی گئی تھی، جو اب بڑھ کر 8 ارب ڈالر ہوچکی ہے، انھوں نے بتایا، 'یہ سی پیک کی اصل رقم میں اضافہ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی تا پشاور ریلوے لائن کے ذریعے 75 فیصد مسافر اور کارگو ٹریفک چلتی ہے، تاہم 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ پر اس کی کارکردگی میں کمی آجاتی ہے، وفاقی وزیر کے مطابق سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے طویل دور اقتدار میں یہ ٹریک خرابی کا شکار ہوا اور اس کے ٹریک، سگنلنگ نظام اور پل انتہائی بری حالت میں تھے۔

مرکزی ریلوے لائن کی اَپ گریڈیشن پر 8 ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا، جسے مکمل ہونے میں 5 سے 6 سال کا عرصہ لگے گا، جس سے اس کی صلاحیت میں 120 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ اضافہ ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:سول ملٹری اختلاف سے سی پیک متاثر ہونے کا خدشہ؟

اس مرکزی لائن کو اگلے مرحلے میں مزید توسیع دی جائے گی تاکہ گوادر کو پشاور سے ملایا جاسکے اور پھر اسے حویلیاں، ایبٹ آباد اور خنجراب سے بھی ملایا جائے گا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سی پیک کے 3 مراحل ہیں، جن میں 4 بڑے شعبوں یعنی گوادر بندرگاہ کی ترقی، توانائی کے منصوبوں، سڑکوں کے منصوبوں اور انڈسٹریل تعاون پر کام کیا جائے گا اور مختصر مدت، درمیانی مدت اور طویل مدت کے یہ منصوبے بالترتیب 2020، 2025 اور 2030 میں مکمل کیے جائیں گے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے نومبر کے آخر میں ہونے والی چھٹی مشترکہ تعاون کونسل (جے سی سی) کے اجلاس میں شرکت پر اتفاق کیا ہے، اس سے قبل ٹرانسپورٹ، گوادر پورٹ اور انڈسٹریل تعاون پر کام کرنے والے ورکنگ گروپ کا اجلاس اگلے ماہ ہوگا، جس میں عملدرآمد کے حوالے سے پلان تشکیل دیاجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹریل تعاون کا طویل المدتی منصوبہ پاکستان میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد فائنل کیا گیا تھا اور تمام وزرائے اعلیٰ نے سی پیک منصوبے کی حمایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی سیاسی پارٹیاں سی پیک پر باہمی اختلافات ختم کریں، چین

ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ سی پیک کے حوالے سے غلط باتیں پھیلا رہے ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے عوامی نیشنل پارٹی کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ان کی قیادت کو اگلے ہفتے بریفنگ کے لیے بلوایا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر ایک گمراہ کن مہم شروع کر رکھی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ 18 ارب ڈالر کے سی پیک منصوبوں پرکام جاری ہے جبکہ 17 ارب ڈالر کے دیگر منصوبے پائن لائن میں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 35 ارب ڈالر کے منصوبوں پر 2 سالوں میں کافی کام ہوچکا ہے۔

یہ خبر 30 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں