وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ افغانستان اپنے ملک میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا بند کرے اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے اپنی ’مبہم سوچ‘ پر نظر ثانی کرے۔

امریکی ادارے وائس آف امریکا کو اپنے انٹرویو میں سرتاج عزیز نے کہا کہ ’افغانستان میں یہ ابہام اور سیاسی عدم اتفاق موجود ہے کہ طالبان کو قومی سیاست میں باغی سمجھا جائے، دہشت گرد سمجھا جائے یا انہیں اسٹیک ہولڈرز مانا جائے‘۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ یہی ابہام افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الاقوامی حمایت یافتہ امن مذاکرات کے آغاز میں رکاوٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'افغانستان سرحد پر دہشتگردوں کی نقل و حرکت روکنے میں تعاون کرے'

انہوں نے مزید کہا کہ ’افغان حکومت کی طالبان سے بات کرنے کا طریقہ بہت ہی زیادہ منتشر ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ قومی اتحاد پر مبنی افغان حکومت کامیاب ہو، اپنی رٹ قائم کرے اور طالبان و دیگر گروپس کو یہ واضح پیغام بھیجے کہ پوری دنیا چاہتی ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کریں اور مسئلے کو حل کریں کیوں کہ کوئی بھی افغانستان میں لڑائی جاری رہنے کا خواہاں نہیں‘۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ افغان حکومت کی سوچ میں وضاحت، پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم اور عالمی دباؤ مشترکہ طور پر طالبان کو واضح پیغام بھیج سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ اس طرح وہ مذاکرات کی میز پر آجائیں۔

سرتاج عزیز کے خیال میں افغان تنازع کو فوجی طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کئی سالوں سے جاری ہیں لیکن ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا بلکہ طالبان مزید مضبوط ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بارہا افغان صدر اشرف غنی کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان دشمن باغیوں پر پاکستان میں زمین تنگ کردی گئی ہے اور جو بھی پاکستان میں چھپے ہوئے تھے وہ واپس افغانستان جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کا امن کیلئے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم

سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ 2600 کلو میٹر طویل سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کے لیے پہلے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب ماضی کی طرح سرحد پر آزادانہ نقل و حمل ممکن نہیں، مسافروں کو افغانستان یا پاکستان میں داخل ہونے کے لیے قانونی دستاویز دکھانے پڑتے ہیں۔

سرتاج عزیز نے افغانستان پر بھی زور دیا کہ وہ بھی اپنی طرف اس طرح کے اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ سرحد پر نقل و حرکت کی نگرانی ممکن ہوسکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کابل میں متعدد افراد نے شدت پسندوں کی مبینہ حمایت پر پاکستانی سفارتخانے کے باہر پاکستان کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

مظاہرین نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے خلاف بھی نعرے بازی کی تھی۔

مظاہرین نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے کو 'جاسوسوں کا گھونسلہ' قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ 'آئی ایس آئی باغیوں کی معاونت کرتی ہے اور ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کی پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے'۔

اس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کرکے دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

آرمی چیف نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے موثر بارڈر مینجمنٹ میکنزم اور انٹیلی جنس شیئرنگ کی تجویز بھی پیش کی تھی۔

آرمی چیف نے یہ بھی کہا تھا کہ 'ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے خطے میں امن دشمن عناصر کو فائدہ پہنچتا ہے'۔


تبصرے (0) بند ہیں