گمشدہ براعظم دریافت ہوگیا

03 فروری 2017
موریشس کا ساحلی علاقہ — فوٹو بشکریہ وٹ واٹر اسٹینڈ یونیورسٹی
موریشس کا ساحلی علاقہ — فوٹو بشکریہ وٹ واٹر اسٹینڈ یونیورسٹی

اگر آپ سے کوئی کہے کہ ایک پورا براعظم کہیں گم ہوسکتا ہے جس میں پہاڑ، درخت اور بہت کچھ ہو تو کیا آپ اس پر یقین کریں گے؟ ویسے تو مشکل لگتا ہے مگر واقعی زمین کا ایک براعظم ماضی میں کہیں گم ہوگیا تھا اور اچھی خبر یہ ہے کہ اب اسے بحرہند کی تہہ میں دریافت کرلیا گیا ہے۔

جی ہاں موریشس کی تہہ میں بحرہند کے نیچے ماہرین ارضیات اور دیگر سائنسدانوں نے گمشدہ براعظم کو تلاش کرلیا ہے۔

جنوبی افریقہ کی وٹ واٹر اسٹینڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے موریشیا نامی اس براعظم کو تلاش کیا جو ممکنہ طور پر 20 کروڑ سال پہلے بہت بڑے براعظم گونڈوانا کا حصہ تھا۔

ماہرین نے موریشس کے نیچے سمندر کی تہہ سے ایسے منرلز دریافت کیے ہیں جو اکثر براعظموں کی تشکیل میں استعمال ہوتے ہیں، یہ منرلز 3 ارب سال پرانے ہیں جبکہ موریشس خود 80 سال پرانا جزیرہ ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ موریشس کے نیچے ہمیں ایسے زرقون اور دیگر انتہائی قدیم منرلز ملے ہیں جو صرف ایک براعظم کی تشکیل میں ہی کام آتے ہیں۔

محققین نے زرقون کرسٹل پہلے بھی موریشس کے ساحلوں پر دریافت کیے تھے تاہم اُس وقت یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا واقعی یہ منرلز کسی گمشدہ براعظم کے ہی ہیں یا نہیں۔

اب ماہرین نے ان نمونوں کا جائزہ لیا اور معلوم ہوا کہ یہ اربوں سال پرانے ہیں جبکہ موریشس جزیرے کی اپنی عمر صرف 80 لاکھ ہے۔

محققین کے خیال میں یہ زرقون زیرِ سمندر آتش فشاں پھٹنے کے نتیجے میں ساحل پر پہنچے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت اور مڈغاسکر کے درمیان کبھی ایک براعظم ہوتا تھا جو کہ گونڈوانا کے ٹوٹ کر بکھرنے کے نتیجے میں سمندر میں غرق ہوگیا تھا اور اس کے بعد وہاں آتش فشاں پھٹنے کے باعث موریشس تشکیل پایا۔

تحقیق کے مطابق نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ موریشس کے ساحلوں کے نیچے ایک براعظم موجود ہے جو اب غرق ہوچکا مگر اس کے زرقون کے ننھے ٹکڑے اس کی کہانی بیان کرتے رہیں گے۔

یہ تحقیق جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں