اسلام آباد: پاک فوج کی جانب سے دوسرے روز بھی پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بھاری توپ خانے سے شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں 20 مبینہ دہشت گرد ہلاک اور سیکٹروں زخمی ہوگئے۔

افغان ٹی وی کی رپورٹس کے مطابق گذشتہ دو روز میں ہلاک ہونے والے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الحرار کے دہشت گردوں کی تعداد 37 ہوگئی ہے جبکہ ان کے متعدد کمپس بھی تباہ ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے جب افغان عہدیدار نے پاکستانی سفارت کار کو اپنے دفتر میں بلایا اور پاک فوج کی جانب سے جمعے کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کی گئی کارروائی پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جانب سے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔

افغانستان نے پاکستان کے اس موقف کو مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کابل اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اسلام آباد کو افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 'پاک افغان سرحد پر موجود دہشت گردوں کو موثر کارروائی میں نشانہ بنایا گیا ہے'۔

مزید پڑھیں: پاک افغان سرحدی علاقہ فوری خالی کرنے کی ہدایت

بیان میں مزید کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز کو سرحد پر نگرانی بڑھانے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔

افغان میڈیا نے اپنی رپورٹس میں جمعے کو ہونے والی کارروائی کے حوالے سے بتایا کہ پاک فوج نے افغانستان کے صوبے نگرہار کے ضلع لالپور اور مشرقی صوبے کنڑ کے ضلع سرکانو میں جماعت الحرار کے کیمپس پر شیلنگ کی۔

گذشتہ رات فوجی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق شیلنگ کے نتیجے میں جماعت الحرار کے 4 کیمپ تباہ ہوئے، جن میں سے ایک گروپ کے ڈپٹی چیف عادل باچا کے زیر انتظام تھا۔

سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جمعہ کے روز ہونے والی کارروائی کے دوران کم سے کم 17 مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کو فرنٹئیر کور (ایف سی) کے ہمراہ سرحدی علاقے لوئی شالمان میں تعینات کیا گیا ہے جو لنڈی کوتل سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے خراسانی گروپ نے افغانستان میں دریائے کابل کے پار علاقے میں اپنے کیمپ قائم کررکھے تھے۔

مذکورہ گروپ نے پاکستان میں ہونے والے متعدد دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں سیکٹروں پاکستانی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق ٹی ٹی پی خراسانی گروپ سے تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

افغان جنرل قادم شاہ شاہیم نے تسلیم کیا ہے کہ پاک فوج نے جمعے کے روز صوبہ نگر ہار میں کم سے کم 200 شیل فائر کیے۔

پاک فوج کی اس کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے پاکستانی سفارت کار ابرار حسین کو اپنے آفس میں طلب کیا اور بتایا کہ شیلنگ سے دو افراد ہلاک ہوئے۔

اس کے علاوہ انھوں نے پاک افغان سرحد کی بندش اور بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی گرفتاری پر بھی شکایت درج کرائی۔

ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان وزارت خارجہ نے ابرار حسین کو جمعہ کے روز طلب کیا تھا لیکن پاکستان کی جانب سے جماعت الحرار کے کیمپوں پر کی جانے والی کارروائی سامنے آنے کے بعد افغان حکام نے اس حوالے سے افغان میڈیا میں انکشاف کیا۔

اس موقع پر ابرار حسین نے حکمت خلیل کرزئی کو بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی پوسٹ پر حملے کے بعد شیلنگ کی گئی ہے اور اس میں افغان شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

مقامی ٹی وی رپورٹس کے مطابق ہفتے کی رات کو پاکستانی فورسز نے افغان سرحد پر بھاری توپ خانے سے شیلنگ کی جس میں 20 مبینہ دہشت گرد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔

افغان ذرائع کے حوالے سے ان رپورٹس میں کہا گیا کہ ہلاک ہونے والوں میں رحمٰن بابا، جو دہشت گردوں کو خودکش جیکٹس بنانے کی تربیت دیتا تھا، اور کمانڈر ولی، جو دہشت گردوں کا ٹریننگ کیمپ چلا رہا تھا، بھی شامل ہیں، پاک فوج کی دوسرے روز کی کارروائیوں میں جماعت الحرار کے 12 کیمپس بھی تباہ ہوئے ہیں۔

اشرف غنی کا موقف

سیہون میں ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے کے بعد پاک فوج کی جانب سے افغانستان میں موجود 76 دہشت گردوں کو حوالے کرنے کے مطالبے پر افغان صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ 'ہماری جانب سے تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز اور اس بات سے قطع نظر کہ وہ کس قوم کو نشانہ بنارہے ہیں، کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔

افغان صدر نے جاری بیان میں کہا کہ 'اسلامی ریپلک آف افغانستان کی حکومت ایک مرتبہ پھر پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ افغانستان کے استحکام اور سیکیورٹی کیلئے مسائل پیدا کرنے والے وہ گروپ جو پاکستان سے آپریٹ کررہے ہیں ان کے خلاف پاکستان عملی اقدامات اور موثر انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا آغاز کرے۔

بعد ازاں وائس آف امریکا نے رپورٹ نشر کی کہ افغان فوج نے پاکستان کی جانب سے 76 مطلوب دہشت گردوں کی فراہم کردہ فہرست کو دیکھنے کے حوالے سے حامی بھر لی ہے۔

افغان جنرل قادم شاہ شاہیم کا کہنا تھا کہ 'ہم ہاکستان کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کی جانچ کررہے ہیں تاہم اگر مزید دستاویزات اور ثبوتوں کی ضرورت پڑی تو طلب کیے جائیں گے، لیکن ہماری جانب سے ماضی میں متعدد فہرستیں اور دستاویزات پاکستان کو فراہم کی گئیں ہیں اور ہم اس اُمید کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان بھی ان کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لائے گا'۔

نوٹ: لنڈی کوتل سے ابراہیم شنواری نے مذکورہ رپورٹ کی تکمیل میں مدد فراہم کی

یہ رپورٹ 19 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں