قومی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی تشخیص کے پیش نظر جینومک سیکوئنسنگ کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر آنے والی ایئر لائنز سے فضلے کا پانی جمع کرنے کے لیے پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی ادارہ صحت اس منصوبے کی قیادت کر رہا ہے کیونکہ دو سال قبل فضلے کے پانی کے ذریعے جینومک سیکوئنسنگ پر اس کا مطالعہ ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہوا تھا جس کے بعد پوری دنیا میں اس پر بحث کی گئی تھی۔

تاہم اب امریکا نے بھی فضلے کے پانی کے ذریعے جینومک سیکوئنسنگ پر غور شروع کر دیا ہے۔

جینومک سیکوئنسنگ ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی جان دار یا وائرس میں پائے جانے والے جینیاتی مواد کی تشخیص کی جاتی ہے اور اس کے نمونوں کا موازنہ سائنس دانوں کو وائرس کے پھیلاؤ کی نشان دہی میں مدد کے لیے کیا جا سکتا ہے کہ وائرس کیسے بدل رہا ہے اور تبدیلیاں کس طرح صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔

ڈان کو موصول قومی ادارہ صحت کے ایک دستاویز کے مطابق ایک لیٹر فضلے کے پانی کی مقدار کو جراثیم سے پاک نمونے کی بوتل میں جمع کیا جائے گا اور اس نمونے کو چار ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اس وقت تک رکھا جائے گا جب تک وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر این آئی ایچ کے پاس منتقل نہیں کیا جاتا۔

رپورٹ کے مطابق جمع کیے گئے نمونے کو اسی دن یا رات میں کولڈ چین پیکیجنگ سسٹم کے ذریعے آئس بالٹی میں پیکنگ کے ساتھ مزید جانچ کے لیے محکمہ وائرولوجی میں منتقل کیا جائے گا۔

قومی ادارہ صحت کے ایک عہدیدار نے کہا کہ کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں میں ادارے نے وائرس کے نئے قسم یا ویرینٹ کی تشخیص کے لیے فضلے کے پانی کی جینومک سیکوئنسنگ کا مطالعہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم نے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے بات کی ہے کیونکہ این آئی ایچ جینومک سیکوئنسنگ کے لیے اعلیٰ قسم کی ٹیکنالوجی فراہم کر چکا ہے کیوں کہ دہائی پہلے جینومک سیکوئنسنگ کے لیے نمونے باہر بھیجے جاتے تھے۔

عہدے دار نے کہا کہ کورونا وائرس کی ٹیسٹ کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا مسافروں کے لیے عجیب اور مشکل ہو چکا تھا اس لیے اب جہاز سے فضلے کے پانی کے نمونے جمع کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ قومی ادارہ صحت کے مطالعے کے مطابق متاثرہ افراد کی علامات ظاہر ہونے سے بہت پہلے پیشاب میں وائرس کا اخراج شروع ہوجاتا ہے، لہٰذا ایسے افراد کی تشخیص وائرس کی دوسروں میں منتقلی شروع ہونے سے بہت پہلے ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میں ایئرلائنز کو ہدایات جاری کی جا سکتی ہیں کہ وہ ٹوائلٹ جانے والے افراد کا ریکارڈ جمع کریں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے بھی اسی منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے اور مستقبل میں اس طریقہ کار میں مزید ایئر پورٹس کو شامل کیا جا سکتا ہے اور اس سے متعدد دیگر بیماریوں کی تشخیص بھی ہوسکتی ہے۔

قومی ادارہ صحت کے ایک اور عہدے دار نے کہا کہ فضلے کے پانی کو جمع کرنا لوگوں کو تکلیف میں ڈالے بغیر وائرس کی تشخیص کا ایک طریقہ کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ وائرس کی تشخیص کے بعد مسافروں کو ٹریس کیا جا سکتا ہے اور ان کے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں یا پھر وائرس کو مزید پھیلانے سے گریز کرنے کے لیے مسافروں کو پانچ دن تک قرنطینہ میں رہنے کی تجویز دی جا سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں