’یہ صوفہ ساتھ نہیں جائے گا‘، بیٹی نے انگلی سے اشارہ کیا۔

’کون۔۔۔ کون سا؟‘ ہم ہکلاتے ہوئے بولے۔

’وہی جو شاید آپ کو سلطنت کے سلطان نے بھیجا تھا جس دن آپ یہاں پہنچی تھیں‘، وہ ہنس کر بولی۔

’مگر بیٹا، دیکھو تو۔۔۔‘

’امی خدا کے لیے، اس کے اسپرنگ ڈھیلے ہوچکے ہیں، کپڑا پرانا، فوم بیٹھ چکا۔۔۔‘

’بیٹا مرمت کروا لیتے ہیں۔۔۔‘ ہم نے منت کی۔

’کیوں؟ نیا کیوں نہیں؟ کیا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں؟‘

’خریدنا مشکل نہیں ہے لیکن پچھلے 14 برس کا ساتھ ہے۔ وہ دن جب ہم اس گھر میں آئے، ڈرائنگ روم کو تیکھی نظر سے دیکھا، ذہن میں کلر اسکیم تیار کی اور لگے شہر کی فرنیچر دوکانیں کنگھالنے۔ سرکاری صوفہ ہمیں قبول نہیں تھا کہ نہ ڈیزائن دل کو بھاتا تھا نہ رنگ اور زندگی میں مرضی کی چیزوں کے ساتھ مزہ نہ کیا جائے، یہ کیسے ممکن ہے؟‘

خانہ بدوشی کے معنی یہ تو نہیں کہ وقت کے جو رنگ ہتھیلی پر رکھے ہیں ان کو زندگی کا حصہ بنانے کے بجائے اس وقت کا انتظار کیا جائے جب خانہ بدوش دیس کو لوٹیں گے۔ سو ہمیں تو جینا تھا، ہر پل، ہر گھڑی، ہر مشکل، ہر تکلیف ہر دکھ کے ساتھ، ایک پل نم آنکھوں کے ساتھ تو اگلا پل بلند آہنگ قہقہہ۔

سو تام جھام پورا کرنے کے لیے وہ اٹالین صوفہ پسند کیا گیا، ساتھ میں میچنگ افغانی قالین خریدے گئے، کھڑکیوں پر پاکستان سے آرڈر پر چقیں بنوا کر ڈال لیں سو ایک اجنبی سرزمین پر مشرق و مغرب کو اکٹھا کرلیا۔

اس صوفے کا پچھلے 14 برس کا ساتھ تھا
اس صوفے کا پچھلے 14 برس کا ساتھ تھا

اس صوفے نے ہمیں آدھی رات کو اسپتال جاتے دیکھا تو کبھی عید پر مہمانوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے۔ اس نے تم لوگوں کو بچپن کی سرحد پار کرتے دیکھا، تمہاری نانی کا لمس بھی یاد ہوگا اسے جو اس پر بیٹھ کر مہمانوں کو کریلے، ساگ اور نہ جانے کون کون سی ترکیب سنایا کرتی تھیں۔

کیسے جدا کریں ان کو خود سے؟ یہ محض لکڑی اسپرنگ اور کپڑے کا بنا ہوا صوفہ نہیں، یہ ہمارے 14 برس کے دن رات کا ساتھی ہے ۔ کیسے جدا کریں اس کو؟

قصہ یہ تھا کہ 14 برس کے بعد ہمیں اسپتال سے ملا ہوا گھر خالی کرنا تھا۔ وہ جہاں برگد تھا، ہمارا ساتھی۔ نیم، امی کا پسندیدہ۔ اور نئے گھر میں جانے سے پہلے فیصلہ ہورہا تھا کہ کیا رکھا جائے کیا پھینکا جائے۔

ہماری جان جگر کا خیال تھا کہ پرانی چیزوں کی نئے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔ ’پرانے تو ہم بھی ہیں بیٹا‘، زیرِ لب کہا۔

یہ جملہ۔۔۔ بالکل یہی جملہ۔۔۔ سنا تھا ہم نے، کہا تھا کسی نے۔۔۔ بالکل یہی، ’پرانے تو ہم بھی ہوگئے ہیں بیٹا‘۔ یوں لگا کہ یہ جملہ بڑا ہوتا جارہا ہو، ہر طرف اس کی گونج ہو۔۔۔ ’پرانے تو ہم بھی ہیں بیٹا، پرانے تو ہم بھی۔۔۔ پرانے۔۔۔ ہم بھی۔۔۔ ہم بھی۔۔۔ ہم بھی۔۔۔‘

اوہ خدایا! یہ جملہ برسوں پہلے کہا گیا تھا اور ہم نے سنی ان سنی کردی تھی یہ کہتے ہوئے ’لو بھلا، پلنگ ہی تو ہیں‘۔

ہماری امی کی شادی نوعمری میں ہوئی۔ نانا نہ صرف زمیندار بلکہ برٹش پولیس میں ڈسٹرکٹ حوالدار بھی تھے۔ ہمیں تو وہ زمانہ نہ مل سکا کہ کچھ ان سے پوچھ ہی لیتے کچھ اس دور کی باتیں کہ وہ محض ایک پرچھائیں کی طرح زندہ تھے اور ہماری نوعمری میں ہی چل بسے۔

امی بتاتی ہیں کہ وہ انگریزی لکھتے پڑھتے تھے، گھر میں سب بچوں کی تاریخِ پیدائش کا ریکارڈ انہوں نے ہی مرتب کیا تھا اور اسی لیے امی سب کو بڑے فخر سے کہتیں میرے ابا نے اپنے ہاتھ سے رجسٹر میں لکھا ’عظمت سیدہ ، سترہ اگست ، انیس سو بتیس‘۔

امی نے اپنے بچپن میں گھر میں بدیسی چیزیں دیکھیں جو نانا چھٹی پر آتے تو ان کے ساتھ ہوتیں۔ سائیکل، ریڈیو، گراموفون اور نہ جانے کیا کچھ۔

امی بڑی بیٹی تھیں۔ شادی ہوئی تو آرڈر پر پیتل کے ڈھیروں برتن بنوائے گئے۔ ہر پلیٹ، گلاس، جگ اور ٹرے کے پیچھے لکھا تھا، حوالدار برکت علی شاہ۔ اور بہت سی شاہانہ چیزوں کے ساتھ جہیز میں امی کو دو پلنگ بھی ملے۔ رنگین پایوں والے شاہانہ نواڑی پلنگ، پشت پر آئینوں اور رنگوں کی مینا کاری۔

ہم نے آنکھ کھولی تو دونوں پلنگوں کی پشت تو اُتر چکی تھی لیکن ان کو جوڑنے کی جگہ پر وہ سوراخ باقی تھے جو کھوئے ہوئے حصے کو یاد کرتے تھے۔ ہر پلنگ اتنا بڑا کہ ہر ایک پر 2، 3 افراد آسانی سے سو سکتے تھے۔ ہم اور ہماری آپا ایک ہی پلنگ پر علیحدہ کمبل لےکر سویا کرتے تھے۔

اماں کو ان پلنگوں سے عشق تھا شاید وہ ان کے ابا یا شاید میکے میں گزرے دنوں کی یاد دلاتے تھے۔ جب بھی نواڑ ڈھیلی پڑ جاتی وہ پلنگوں کو صحن میں نکلواتیں، جھاڑتیں، دھوپ لگواتیں اور پھر نواڑ کستیں۔ نواڑ کسنے میں کئی بار ہم نے اسسٹنٹ کی ڈیوٹی سرانجام دی۔

اماں کو ان پلنگوں سے عشق تھا شاید وہ ان کے ابا یا شاید میکے میں گزرے دنوں کی یاد دلاتے تھے
اماں کو ان پلنگوں سے عشق تھا شاید وہ ان کے ابا یا شاید میکے میں گزرے دنوں کی یاد دلاتے تھے

کبھی انہیں شک ہوتا کہ نواڑ میلی ہوچکی اور بو آرہی ہے تو وہ فورا نواڑ ادھیڑ کر دھو ڈالتیں۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل نواڑ، جس سے پلنگ کو دو طرف سے بُنا گیا ہوتا، 60، 70 گز سے کیا ہی کم ہوگی؟ ایک عورت اسے کھولتی، دھوتی، سکھاتی اور پھر دوبارہ پلنگ بنتی۔

نہ جانے اس سب میں کیا کیا نہ یاد کرتی ہوں گی وہ؟ میکے میں گزرے وہ دن جب وہ نہ صرف ماں باپ کی لاڈلی تھیں بلکہ سوتیلی ماں، تائی، پھوپھی اور بڑے بھائیوں کی آنکھ کا تارا بھی تھیں۔

پلنگ جہازی سائز کے تھے اور انہیں کمرے میں جب رکھا جاتا تو پھر کسی اور چیز کی جگہ نہ بچتی اور بدقستمی سے وہ کمرہ ہمارا یعنی بہنوں کا ہی ہوتا۔

ہمیں ان پلنگوں سے شدید چڑ تھی ’کیا مصیبت ہے؟ باوا آدم کے زمانے کے پلنگ، پرانا فیشن، کوئی بیڈکور پورا ہی نہیں آتا۔ کچھ کھینچ تان کر بچھا بھی لیں تو چاروں کونوں میں ابھرے ہوئے کونوں کا کیا کریں؟‘

ہم ہر وقت بڑبڑاتے۔۔۔ ’پتا نہیں کیا کاٹھ کباڑ جمع کر رکھا ہے؟ کب چھٹکارا ملے گا؟ بازار میں اتنے پیارے جدید فیشن کے پلنگ جو زیادہ اونچے بھی نہیں ہوتے، جگہ بھی نہیں گھیرتے، جھولا بھی نہیں بنتے‘۔

امی سب سنتیں اور نظر انداز کرتیں۔ ہماری بڑبڑاہٹ جب حد سے بڑھ جاتی تب وہ کہتیں، ’پلنگوں کو اگر پھینکنا ہے تو مجھے بھی گھر سے نکالو‘۔

’یہ کیا بات ہوئی؟‘ ہم آنکھیں پھیلا کر کہتے ۔ ’آپ میں اور پلنگوں میں کوئی فرق نہیں بھلا؟‘

’نہیں۔۔۔ کوئی فرق نہیں‘، وہ چڑ کر کہتیں۔ ’میں پرانی، میرے پلنگ پرانے‘۔

’امی پلیز۔۔۔‘ ہم ان کی منت کرتے۔

’نہیں، ہمارے باپ نے بہت شوق سے بنوائے تھے عظمت رانی کے لیے۔۔۔‘ وہ دل گیر ہوکر کہتیں۔

سرکاری گھر ہم جب بھی بدلتے، اس بحث کا آغاز ہوتا اور وہ بھی ہماری طرف سے۔۔۔ ہمیشہ! ہمیں گھر سجانے کا بے حد شوق اور وہ بھی نت نئے طریقوں سے۔ ہمارے اسٹائل کے ساتھ وہ پلنگ میچ ہی نہیں کرتے۔ ابا اور باقی بہن بھائی، امی اور ہماری جنگ میں خاموش تماشائی بنتے۔ کس کو منع کرتے؟ عزیز از جان بیٹی کو یا محبوب بیوی کو؟

اسی کھینچا تانی میں ہم ہاسٹل سدھار گئے۔ جب بھی چھٹیوں میں گھر آتے، پلنگ دیکھ کر ایک بار ضرور ناک بھوں چڑھاتے لیکن جوش و خروش میں کافی کمی ہوچکی تھی’۔

ابا ریٹائر ہوگئے۔ اپنا گھر بنایا۔ ہم لاہور میں ہی تھے جب اپنے گھر میں شفٹ ہوئے۔ جب ہم گھر آئے تو اشتیاق عروج پر تھا پر دل میں ایک کھٹک ضرور تھی، اُف نئے گھر میں وہی پرانے نواڑی پلنگ۔

گھر آئے، اچھلتے کودتے سب کمروں کی سیر کی۔ ہر کمرے میں نئے پلنگ بچھے تھے، میچنگ سائیڈ ٹیبلز اور ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ۔

’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ پلنگ۔۔۔‘ ہم ہکلائے۔

’دے دیے۔۔۔ یہاں ایڈجسٹ کرنا مشکل تھا‘، بھائی نے جواب دیا۔

ہم نے امی کی طرف مڑ کر دیکھا، وہ خاموش بیٹھی تھیں، بے تاثر چہرہ لیے۔۔۔ جیسے زیرِ لب کہہ رہی ہوں، ’کیا میری ذات بھی کبھی ایسی ہوگی کہ مشکل سے سمائے؟‘

آج جس صوفے پر ہم اپنی بیٹی سے بحث کررہے ہیں اس سے ہمارے ابا کی کوئی یاد منسلک نہیں لیکن گزری عمر کی یادیں دل کے تار چھیڑ دیتی ہیں۔ اور ہماری آنکھوں کے سامنے بار بار نواڑی پلنگ آجاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں