رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

میں نے جتنی بے سکونی فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں محسوس کی ہے اتنی کسی اور یورپی دارالحکومت میں نہیں کی۔ وہاں کئی سفید فام لوگوں کی خاموشی میں ایک جارحانہ رویے کا اظہار ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میرے لیے ایک فرانسیسی پولیس اہلکار کی جانب سے عام ٹریفک اسٹاپ پر الجزائری نژاد نوجوان کو گولی ماردینے کی ویڈیو بہت زیادہ حیران کن نہیں تھی۔ وہ نوجوان 17 سالہ ناہیل میرزوک تھا جو اس واقعے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اس واقعے کے بعد کے دنوں میں ہزاروں مظاہرین فرانس کی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے دکانوں اور گاڑیوں کو آگ لگادی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ خود کو بھی اس نوجوان جیسا ہی سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں بھی پولیس کے ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس واقعے کے بعد سے فرانس میں مسلمانوں اور غیر سفید فام افراد کے خلاف جاری تعصب بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔

ہلاک ہونے والے نوجوان کے جنازے میں فرانسیسی مسلمانوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ ہلاک نوجوان کے اہل خانہ کی حفاظت پر کچھ سیکیورٹی گارڈز تعینات تھے جن کا انتظام مسجد کی انتظامیہ نے کیا تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس جنازے کے مقام پر جہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے کوئی پولیس اہلکار تعینات نہیں کیا تھا جبکہ مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے 45 ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ فرانس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست کی جانب سے مسلمانوں کے وجود کو ہی نظرانداز کیا جاتا ہے۔

جنازے میں شریک کچھ افراد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس واقعے کی ویڈیو موجود نہ ہوتی تو ناہیل میرزوک کی ہلاکت کو بھی ماضی میں سفاک فرانسیسی پولیس کے ہاتھوں ہونے والی کارروائیوں کی طرح نظر انداز کردیا جاتا۔

اس معاملے پر میکرون حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں سے مختلف ردعمل نہیں دیا۔ جیسے ہی مظاہرین نے سرکاری املاک اور دکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا اور پولیس اہلکاروں پر حملے کیے تو حکومتی شخصیات کی جانب سے مذمتی بیانات آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن یہ بیانات اصل واقعے کے بجائے املاک کو ہونے والے نقصان کی مذمت کے تھے۔

یعنی فرانسیسی ریاست الجزائری اور افریقی النسل افراد کے ساتھ جو دشمنی پر مبنی رویہ رکھتی ہے اس پر بات نہیں کی بلکہ املاک کو ہونے والے نقصان اور پولیسد اہلکاروں کے زخمی ہونے پر بحث کی گئی۔ اس نے مظاہرین کو مزید اکسایا۔ مظاہرین اس ردعمل کو سفید فام اکثریتی فرانس کی جانب سے فرانسیسی مسلمانوں اور الجزائر اور مراکشی النسل افراد کو درپیش مشکلات کو نظر انداز کرنے کی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ناہیل مرزوک کی ہلاکت کے بعد پورے فرانس میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ مظاہرین نے ان میئرز کے گھروں کو نشانہ بنایا جن کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ وہ حکومت کے حمایتی ہیں۔ لائے لے روز ایک نسبتاً پرسکون علاقہ ہے لیکن اس کے میئر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ مظاہرین نے میئر کی رہائش گاہ کے دروازے سے گاڑی ٹکرادی اور پھر گاڑی کو آگ لگادی۔ اس کے بعد انہوں نے آتش بازی کے سامان سے بھی اس گھر کو نشانہ بنایا جس سے میئر کے گھر والے زخمی ہوئے۔ فرانسیسی میئرز کی ایسوسی ایشن ان مظاہروں کو کچلنے کے حوالے سے مزید سخت بیانات دے رہی ہے۔

فرانسیسی صدر عمانوئیل میکرون نے 4 جولائی کو حکام کے ساتھ ہونے والی نشست میں اس امید کا اظہار کیا کہ ان واقعات پیچھے موجود ’وجوہات کا تعین کرنے کے لیے سخت اور طویل مدتی کام شروع کیا جائے گا‘۔

اس بات کو سمجھنا مشکل ہے کہ کہیں انہوں نے ایسا وقت گزارنے کے لیے نہ کہا ہو اور مسلم اقلیت کے خلاف ریاستی حکام کا تعصب ویسے ہی برقرار رہے۔ اگر وہ واقعی ان وجوہات کو جاننا چاہتے ہیں تب بھی یہ حقیقت ہی اپنے آپ میں بہت افسوس ناک ہے کہ وہ اب تک ان وجوہات سے بے خبر ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانس کی اکثریت کئی دہائیوں سے وہاں رہنے والی اقلیت سے کتنی غافل اور لاتعلق ہے۔ یہ حقیقت ہی بہت تشویش ناک ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدیدار کا خیال ہے کہ نسل پرستی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ابھی کچھ ہی ہفتے گزرے ہیں کہ کشتی کے ذریعے یورپ اسمگل کیے جانے والے سیکڑوں پاکستانی کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ سوچ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے نوجوان یورپی ممالک تک پہنچنے میں اپنی جان کی بازی لگارہے ہیں۔ ان یورپی ممالک میں فرانس بھی شامل ہے جہاں اس بات کے امکانات تقریباً 100 فیصد ہی ہیں کہ ان سے بہت برا برتاؤ کیا جائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور غیر سفید فام تارک وطن وہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اس کے باوجود بھی ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی سے نبرد آزما، موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر اور سیاسی طور پر جمود کا شکار پاکستان سے ان مہاجرین کی آمد میں اضافہ ہوگا۔

مرکزی دھارے میں شامل متوسط ​​طبقے کے فرانسیسیوں کو مضافاتی علاقوں کے غربت زدہ فرانسیسی مسلمانوں سے یہ شکایت ہے کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست کی جانب سے قائم کردہ سماجی بہبود کے نظام کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ایک چال ہے، کیونکہ اس کے پیچھے اصل سوچ یہ ہے کہ سماجی بہبود کے نظام سے صرف سفید فام لوگوں (اصلی فرانسیسی) کو فائدہ پہنچنا چاہیے نہ کہ تارکین وطن کو۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ جیسے جیسے مزید تارکین وطن یورپی ممالک میں داخل ہوں گے ویسے ویسے آزادی، مساوات اور بھائی چارے کی لبرل اقدار کو یکسر ختم کر دیا جائے گا۔ ان اقدار کی حالت اس وقت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ ان کی جگہ کچھ ایسا فارمولا اپنایا جائے گا جو نسل پرست یورپی ریاستوں کو سرکاری مراعات کو غیر سفید فام لوگوں تک محدود کردینے کی اجازت دے گا۔


یہ مضمون 6 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں