’ڈاکٹر صاحب! باتھ روم تک پہنچ ہی نہیں پاتی، جونہی گاڑی سے اترتی ہوں، سمجھیے جی چاہتا ہے دروازے پر ہی بیٹھ جاؤں، تالا کھولتے کھولتے ہی۔۔۔‘، وہ خاتون دل گرفتہ ہوکر ہمیں بتا رہی تھیں۔

یہ سن کر ہمیں بے اختیار پروفیسر اعجاز یاد آگئے۔ وہ ان دنوں انگلستان سے نئے نئے واپس آئے تھے اور ہر روز وہاں کی کوئی نہ کوئی کہانی ہمیں سناتے تھے۔

ایک دن پوچھنے لگے، ’تم لوگوں کو پتا ہے ’کی اِن دی لاک سنڈروم‘ کیا ہے؟‘

’ہائیں نام تو بڑا جاسوسی سا ہے، اب کیا شرلاک ہومز کا کام بھی ہم کریں گے؟‘ ہم نے سوچا۔

’افوہ بھول گئیں تم کہ شرلاک ہومز نامی کردار ایک ڈاکٹر کو دیکھ کر ہی لکھا گیا تھا‘، دماغ نے ہمیں جھڑکا۔

اب عالم یہ تھا کہ سوال سننے کے بعد وارڈ میں کھڑے سب ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں کہ کون یہ گُتھی سلجھائے؟ ابھی اسی دبدھا میں تھے کہ انہوں نے اگلا سوال داغ دیا، ’لِنڈا کارڈوزو کون ہے؟‘ یقین جانیے ہالی ووڈ کی نئی پرانی سب ہیروئنز کو یاد کرلیا مگر لِنڈا صاحبہ کا کہیں کوئی سراغ نہ ملا۔

’پڑھا کرو تم لوگ، ڈاکٹری نام ہی پڑھنے اور یاد رکھنے کا ہے۔ میں تو تم لوگوں کو اس لیے پڑھاتا ہوں کہ جب میرے بچے کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں تو وہ نالائق کہیں ان کا حشر نشر نہ کر دے‘، ڈاکٹر صاحب گرج رہے تھے۔

ایک دن کے لیے اتنی عزت افزائی کافی تھی۔

گھر پہنچتے ہی کتابوں میں سر دے دیا۔ بھیا گوگل تو تھا نہیں جو کھڑے کھڑے دو منٹ میں بتا دیتا۔ واللہ کبھی کبھی اس گوگل کی وجہ سے اکیسویں صدی والوں سے ہمیں شدید حسد محسوس ہوتی ہے۔

خیر بی بی لِنڈا کورڈوزو کا سراغ مل گیا۔ وہ انگلستان میں خواتین کے مثانے اور پیشاب کے معاملات کی پروفیسر ہیں اور اس بارے میں بہت سی کتابیں لکھ چکی ہیں۔

اب آئیے تالا چابی کی طرف۔ یار لوگوں نے ہمارے لیے جب تالا چابی پر میمز بنائے، یقین کیجیے ہم اور بچے ہنس ہنس کے بے حال ہوگئے۔ ارے نادانو، تم کیا جانو کہ عورت تو نام ہے آبلہ پائی کا۔ وہ کیونکر سہمے گی تم لوگوں کی جگت بازی سے؟ کہہ لو جو بھی دل چاہے، ہمیں کونسی پروا ہے؟

تو آئیے جانتے ہیں کہ کیا ہے تالا چابی سنڈروم؟

آپ شاپنگ پر نکلی ہوئی ہیں۔ تین چار گھنٹے ہوگئے بازار میں گھومتے ہوئے۔ آپ نے پانی بھی پیا ہے اور کافی بھی۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ مثانہ پیشاب سے بھر گیا ہے اور خالی کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ سوچ رہی ہیں کہ جلدی گاڑی گھر پہنچے اور آپ باتھ روم جائیں۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے۔

لیکن ہوتا کیا ہے کہ جونہی آپ گاڑی سے اُترتی ہیں اور پرس سے چابی نکال کر دروازہ کھولنے لگتی ہیں تو ایک دم مثانے کا پریشر بڑھتا ہے اور گھر کے دروازے پر ہی پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔ آپ ہکا بکا رہ جاتی ہیں کہ یہ کیا ہوا؟

تالا کھولتے ہوئے مثانے کا پریشر کیوں بڑھتا ہے؟
تالا کھولتے ہوئے مثانے کا پریشر کیوں بڑھتا ہے؟

اس سے ملتی جلتی مثال گھر کی چھت یا کسی گوشے سے اٹھ کر باتھ روم تک پہنچنا ہے۔ جب باتھ روم جاتے جاتے کپڑے اور فرش گیلے ہوجائیں تو آپ سب گھر والوں کے سامنے حیران پریشان ہوجاتی ہیں۔

لیکن ایسا ہوتا کیوں ہے؟

مثانے کے اردگرد مسلز کو ’ڈٹروزر مسلز‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مسلز اعصاب یا نروز کے ذریعے دماغ سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ عام حالات میں یہ مسلز مثانے کو اس وقت دبا کر پیشاب خارج کرنے میں مدد دیتے ہیں جب باتھ روم پہنچ کر کموڈ پر بیٹھتے ہیں۔ لیکن چابی تالا سنڈروم میں ڈٹروزر مسلز ضرورت سے زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ مثانہ بھرا ہوا ہے اور اب باتھ روم جانے کی ضرورت ہے۔ وہ سکون سے انتظار کرتے ہیں لیکن عین کچھ منٹ پہلے وہ مثانے کو اس قدر زور سے دباتے ہیں کہ پیشاب دروازے پر ہی نکل جاتا ہے۔

آخر خرابی کہاں پر ہے؟

گو کہ پیشاب ڈٹروزر مسلز کے انتشار اور مثانے کا منہ کھل جانے کی وجہ سے خطا ہوتا ہے لیکن اس میں بہت سے عوامل شامل ہوتے ہیں۔

عورت کے رحم کے اردگرد مسلز کو پیل وک فلور (Pelvic floor) کہا جاتا ہے اور یہ فلور تین اعضا مقعد، بچہ دانی اور مثانے کو تھام کر رکھتا ہے۔ پیل وک فلور کی کمزوری حمل اور زچگی میں عام ہے جس کی وجہ سے Stress Incontinence دیکھنے کو ملتا ہے (چھینک مارنے یا کھانسی کے ساتھ پیشاب خطا ہوجانا) لیکن کہا جاتا ہے کہ زچگی اور حمل کی وجہ سے کمزور پیل وک فلور کچھ نہ کچھ حصہ تالا چابی سنڈروم میں بھی ڈالتا ہے۔

تالا چابی سنڈروم میں کچھ ایسا بھی ہے جو انوکھا ہے اور وہ دماغ ہے۔ جسم کا ہر عضو دماغ سے حکم وصول کرکے اپنا کام کرتا ہے۔ جب آپ بازار میں گھوم رہی ہوتی ہیں تب دماغ مثانے کو بتاتا رہتا ہے کہ آرام سے بیٹھو۔ گھر پہنچنے کے قریب دماغ پیغام بھیجتا ہے بس کچھ انتظار اور دروازے پر پہنچ کر دماغ کنفیوز ہوجاتا ہے اور مثانے کو ( ڈٹروزر مسلز کے ذریعے) حکم دیتا ہے کہ پیشاب خارج کر دو۔

دماغ کیوں کنفیوز ہوتا ہے؟ کیا بڑھتی عمر کی وجہ سے؟ کیا پیل وک فلور کی کمزوری کی وجہ سے؟ ان سوالات کے جواب ابھی ریسرچرز سے واضح نہیں ہوئے۔

تالا چابی سنڈروم کو سائنسی زبان میں Urge Inconvenience کہا جاتا ہے۔

پیشاب خارج کرتے وقت دماغ کب کنفیوز ہوتا ہے؟
پیشاب خارج کرتے وقت دماغ کب کنفیوز ہوتا ہے؟

بعض مریضوں میں پیشاب نکلنے کی علامات/وجوہات واضح طور پر urge یا stress کے خانے میں پوری نہیں آتیں بلکہ کچھ ملا جلا سا رحجان ہوتا ہے۔ پیشاب نکلنے کی اس صورت حال کو Mixed Incontinence کہا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں ادھیڑ عمر خاتون کو کوئی بھی مسئلہ ہو اسے بڑھتی عمر کے کھاتے میں ڈال کر جان چھڑالی جاتی ہے۔ خواتین عمر کا ایک تہائی حصہ کس مشکل میں گزارتی ہیں، آپ کو گائنی فیمنزم سمجھے بنا کبھی سمجھ نہیں آئے گا۔

سو مدد کیجیے اپنے گھر کی عورت کی۔ اس سے اس کی زندگی سہل ہوگی اور نقصان میں آپ بھی نہیں رہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں