وہ لوگ جو مشرقِ وسطیٰ کے تنازع سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے اور اسے پہلی بار مغربی میڈیا کے توسط سے دیکھ رہے ہیں تو انہیں یہی لگے گا کہ فلسطین-اسرائیل تنازع 7 اکتوبر 2023ء کو اس وقت شروع ہوا جب حماس نے غزہ کی پٹی سے متصل اسرائیلی کیبوتس میں پُرتشدد کارروائیاں کیں۔

ان کارروائیوں کے دوران قتل اور اغوا ہونے والے افراد میں امن کے لیے سرگرم کارکنان بھی شامل تھے جو مغربی کنارے کے غیرقانونی آبادکاروں جیسی پُرتشدد سوچ نہیں رکھتے تھے۔ بنیادی طور پر کسی بھی انسان کو پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ لیکن دوسری جانب 1948ء سے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، جس نے بعدازاں 1967ء میں شدت اختیار کرلی، اس کے بارے میں بھی سب کی یہی رائے ہونی چاہیے۔

آج فلسطین کی صورتحال کو دیکھنے کے لیے ہمیں تاریخ میں 1917ء کے بالفور معاہدے تک جانا ہوگا۔ اس وقت کے استعماری برطانیہ نے الگ وطن کا مطالبہ کرنے والے صہیونیوں کو یورپ میں مقیم یہودیوں کے لیے الگ زمین دینے کی پیشکش کی تھی۔ یورپ میں مقیم یہودی نازی حکومت آنے سے بہت پہلے ہی یہود مخالف سوچ کا شکار تھے اور اس کے بعد نازی حکومت نے آتے ہی انہیں قتل و غارت کا نشانہ بنایا۔

تاہم ’حتمی حل‘ [یعنی یہودیوں کی بڑی تعداد کو قتل کرنے] سے پہلے نازیوں نے انہیں اپنی زمین سے بےدخل کرنے پر غور کیا تھا۔ اس کے لیے سب سے پہلے انہوں نے میڈاگاسکر پر غور کیا لیکن فلسطین بھی متبادل کے طور پر ان کی نظروں میں تھا۔ دونوں کی یہی سوچ نازیوں اور صہیونیوں کے درمیان کسی حد تک تعاون کا باعث بنی جسے وہ تاریخی شواہد ہونے کے باوجود رد کرتے ہیں۔

البتہ نازیوں اور صہیونیوں کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا کیونکہ جرمن اور دیگر یورپی ممالک کے یہودیوں نے امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اس حوالے سے 19 ویں صدی کی ایک مصدقہ کہانی کا بہت ذکر ہوتا ہے کہ چند سفیروں کو ’وعدہ کی گئی سرزمین‘ کی جانب بھیجا گیا ہے جنہوں نے ویانا میں ربیوں کو اطلاع دی کہ ’دلہن تو خوبصورت ہے، لیکن اس کی شادی پہلے ہی کسی اور آدمی سے ہو چکی ہے‘۔

20ویں صدی کے اوائل میں وہ صہیونی جو کمیونزم کے حامی تھے انہوں نے ایسے ملک کا خواب دیکھا جہاں وہ فلسطینی محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر یہودی اور عرب سرمایہ داروں کا مقابلہ کریں گے۔ تاہم انہیں چند ابتدائی کومنٹنر کانگریس میں دیگر یہودی گروہوں کی جانب سےمخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ دیکھا جائے تو اسرائیل کے قیام کے پیچھے اس کے ابتدائی حامیوں کی یہودیوں کے لیے ہمدردی کم اور یہ خواہش زیادہ تھی کہ وہ ان کے ممالک سے چلے جائیں۔ اسی دوران جوزف اسٹالن کی سوویت یونین اور مغرب میں اس کے حامی، خاص طور پر امریکا آغاز سے ہی اسرائیل کے منصوبے کے حوالے سے پُرجوش تھے۔ کچھ ممالک نے تو اپنے تعصبات کو نظر انداز کیا لیکن اینگلو سیکسن فائیو آئیز ممالک اور جرمنی اور فرانس سمیت دیگر ممالک نے اسرائیل کو قتل عام کی کھلی چھوٹ دے دی۔

آج حماس کے خاتمے کے مقصد سے غزہ کو اجتماعی سزا دی جارہی ہے، ایسا ظلم ہمیں ماضی میں بھی نظر آیا تھا۔ نازی بھی پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے جن میں پراگ کے مضافات میں لیدیس میں ہونے والا قتل عام اور اس کے علاوہ اورادوار سور گلان کا قتل عام بھی شامل ہے۔ ’ایسا دوبارہ نہ کرنے کے وعدوں‘ کے باوجود بھی اس قسم کی کارروائیاں جاری رہیں جن میں امریکا اور اس کے اتحادی بھی ملوث رہے، یہ بھی کوریا اور ویتنام سے لے کر عراق اور افغانستان تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ تو اس میں تعجب کی بات نہیں کہ اسرائیل انہی کی روش اختیار کرکے اب امریکا اور دیگر ممالک سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکا ہے۔

یہ کسی حد تک اس سوچ کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے جس کے تحت دائیں بازو کے گروہ اور امریکا، یورپ، بھارت حتیٰ کہ مشرقِ وسطیٰ کی حکومتیں اسرائیل کی نسل پرستانہ جارحیت کی مذمت نہیں کرتی ہیں حالانکہ اس کے لیے اخلاقی اقدار پر بھی سمجھوتے کرنے پڑ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر مغربی مین اسٹریم میڈیا اس بارے میں بہت زیادہ بات نہیں کرے گا کہ 1980ء کی دہائی میں اسرائیل نے فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن کے خلاف اخوان المسلمین کا ساتھ دیا۔ اسی حکمتِ عملی کی کامیابی پر اخوان المسلمین کی شاخ حماس نے 2006ء کے فلسطینی عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن فلسطین اتھارٹی نے انہیں حکومت کرنے کا جمہوری حق دینے سے انکار کردیا۔

2005ء میں اسرائیل کی جانب سے علاقہ خالی کیے جانے کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی جماعت فتح سے غزہ کا کنٹرول حاصل کیا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون مغربی کنارے کے حوالے سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے غزہ کو بھی خالی چھوڑ دیا گیا اور سب کچھ ان کے منصوبے کے مطابق ہوتا رہا۔ 4 سال قبل نیتن یاہو نے اپنے معاونین کو بتایا کہ ’وہ لوگ جو فلسطینی ریاست کے امکانات کو ختم کرنا چاہتے ہیں انہیں حماس کی حمایت کرنی چاہیے اور اسے رقم منتقل کرنی چاہیے۔ یہ ہماری حکمتِ عملی کا حصہ ہے‘۔

یہ حکمتِ عملی رواں ماہ کے اوائل میں بری طرح ناکام ہوگئی اور اپنے ملٹری اور انٹیلی جنس سربراہان کے برعکس نیتن یاہو نے حکومت کی لاپروائی پر اپنی قوم سے معذرت بھی نہیں کی۔ لیکن جب اس حوالے سے احتساب کا مرحلہ شروع ہوگا تو وزیراعظم کا اپنی کرسی پر برقرار رہنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

سابق اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر کا ایک بدنام زمانہ بیان تھا کہ ’ہم اپنے بچوں کو قتل کرنے پر تو عربوں کو معاف کرسکتے ہیں لیکن اُن کے بچے مارنے پر مجبور کرنے کے لیے اُنہیں معاف نہیں کرسکتے‘۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اگر حماس یہ بیان کچھ ترمیم کے ساتھ اسرائیل کو یاد دلاتی ہے تو کیا ردِ عمل آتا ہے۔


یہ مضمون 25 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں