رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان جاری حالیہ تنازع میں بہت سے عوامل ایسے ہیں جو ماضی کی عکاسی کرتے ہیں۔ امریکا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسرائیل کے جنگی جرائم کی پشت پناہی کررہا ہے۔

اسی طرح گزشتہ ہفتے امریکا نے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد کو بھی ویٹو کردیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن اس سے قبل متعدد بار اسرائیل کی حمایت کرچکے ہیں جبکہ ساتھ ہی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد سے متعلق تشویش کا بھی اظہار کرچکے ہیں۔

ڈیموکریٹ اور ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے بہت سے قانون ساز بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیلی لابی سے موصول ہونے والی رقم کے مطابق اسرائیل کی طرف داری کررہے ہیں۔ لیکن کانگریس کی ترقی پسند خواتین کا ایک گروہ، جس میں فلسطینی نژاد راشدہ طلیب اور صومالی نژاد امریکی کانگریس رہنما الہان عمر شامل ہیں، جو بائیڈن انتظامیہ سے اتفاق نہیں کرتا مگر خود ان کے نقطہ نظر سے اتفاق کرنے والے امریکی سیاستدانوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔

تاہم امریکی حکومت کی حمایت کے باوجود فلسطین-اسرائیل تنازع کو جس طرح امریکی عوام سمجھ رہے ہیں وہ کافی مختلف ہے۔ اگر طاقتور اسرائیلی لابی جو اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے، اسے مات دینی ہے تو اس کے لیے ووٹ دینے والے امریکی عوام کی رائے میں تبدیلی اہم ثابت ہوگی۔ حالیہ دنوں میں ہمیں اس بارے میں شواہد بھی ملے ہیں۔

گزشتہ ہفتوں سے امریکا بھر میں غزہ کی حمایت میں لگاتار مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس اور ڈیٹرائٹ جیسے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

ان ہی میں سے ایک گزشتہ ہفتے یہودی گروپ ’جیوش وائسز فار پیس‘ کے زیرِ اہتمام مظاہرہ بھی تھا جس میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرین گرینڈ سینٹرل اسٹیشن میں جمع ہوگئے جس کی وجہ سے پولیس کو مجبوراً ریل ٹرمینل بند کرنا پڑا۔ مظاہرین نے ’ناٹ ان آور نیم‘ [ہمارے نام پر نہیں] کے نعرے لگائے اور اس بات پر زور دیا کہ غزہ کی پٹی پر جاری مسلسل بمباری کو تمام یہودیوں کی حمایت حاصل نہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں مسئلہ فلسطین اور مسلمانوں کی زمینوں پر قبضے کو اس انداز میں پیش کیا جارہا ہے جو امریکی عوام کو باآسانی سمجھ آسکے۔ حالیہ برسوں یا کم از کم 2021ء سے، فلسطین کے حامیوں نے بلیک لائیوز میٹر موومنٹ کے منتظمین کے ساتھ تعاون کرنا شروع کردیا تھا۔

جب 2021ء میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ہوئی تو نیشنل پبلک ریڈیو نے فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطینی حامیوں اور سیاہ فام امریکیوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کے درمیان تعاون کیسے قائم ہوا۔

1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ سے قبل بہت سے سیاہ فام امریکی عیسائی، مسیحی صہیونیت اور اسرائیلی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے تھے۔ 1967ء کی جنگ اور فلسطینی زمین پر اسرائیلی قبضے کے بعد ان کے نظریات میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔

آج اسرائیلی ریاست کے اقدامات کو آباد کار استعمار کی کارروائیوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں بڑی تعداد میں یورپ سے سفید فام لوگوں نے برطانوی سلطنت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کیا تھا۔

اس کو یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ یورپی باشندے یورپ میں یہودیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی پر آمادہ نہیں تھے، اس لیے انہیں غیر یورپی اور مسلمانوں کی زمین پر بسانے کا فیصلہ کیا۔ 1967ء کے بعد کی چند دہائیوں میں اس طرح کے نقطہ نظر کو ’یہود مخالف‘ قرار دیا جاتا تھا۔

اسرائیلی ریاست پر تنقید کے نتیجے میں امریکا میں مقیم ان مخصوص یہودیوں کی جانب سے اب بھی ’یہود مخالف‘ ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے جوکہ فلسطینیوں کی اچانک حمایت سے پریشان ہوگئے ہیں۔

تاہم، امریکی تعلیمی اداروں میں بی ڈی ایس (بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور سینکشنز) تحریک کے ذریعے کیا گیا کام اس چیز کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح امریکی قانون سازوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اسرائیلی ریاست کو قتل عام کرنے اور قبضے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔

بی ڈی ایس آج بھی متحرک ہے۔ امریکا میں اس کے حامیوں اور آئیوی لیگ کالجز میں فلسطین کی حمایت کرنے والے طلبہ کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

طلبہ کے دیگر گروہ جیسے بلیک لائیوز میٹر میں شامل گروہوں نے دیکھا ہے کہ طاقتور یہودی مفادات جو ہمیشہ اسرائیل کے فیصلوں پر سے توجہ ہٹاتے آئے ہیں، کس طرح بی ڈی ایس تحریک کی مخالفت کرتے ہیں۔

برسوں سے فلسطین-اسرائیل تنازع کو صرف سفید فام لوگوں کی جابرانہ سیاست اور اس کی بالادستی کے تناظر میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ بلیک لائیوز میٹر کے کارکنان اسرائیلی حکام کی جانب سے فلسطینیوں پر ظلم اور امریکی پولیس کی جانب سے سیاہ فام امریکی شہریوں کو نشانہ بنائے جانے میں مماثلت کو دیکھ سکتے ہیں۔

ٹک ٹاک اور بالخصوص ٹک ٹاک لائیو، نے اس موضوع پر گفتگو اور بحث کے لیے ایک پلیٹ دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں سیاہ فام امریکی سول رائٹس کارکنان اور صہیونی یہودیوں کے درمیان مکالمہ ہوا۔ اس مکالمے میں سیاہ فام کارکنان نے صہیونی یہودیوں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات پر سوالات اٹھائے کیونکہ وہ جملے بالکل ویسے ہی تھے جیسے نسل پرست سفید فام شہری ان کے خلاف ادا کرتے آئے ہیں۔

پھر اس جملے کہ ’میرے فلسطینی دوست ہیں‘ پر بھی اعتراض کیا گیا کیونکہ اس طرح کے جملے اس حقیقت کو دبا رہے ہیں کہ یہودی اسرائیلی ایک غاصب قوت ہیں یا اس قبضے میں مددگار ہیں اور یہ کہ فلسطینی عربوں کی بڑی تعداد اپنا دفاع نہیں کرسکتی۔

صرف سیاہ فام امریکی ہی فلسطینیوں کی حمایت نہیں کررہے بلکہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد ہونے والے ایک پول میں انکشاف ہوا کہ 30 سے 35 سال کی عمر کے 25 فیصد امریکی شہری اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت پر مثبت رائے رکھتے ہیں۔ مظاہروں اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز پر فلسطین کے حق میں بلند ہوتی آوازیں، امریکی عوام کی سوچ میں تبدیلی کا اشارہ دیتی ہیں۔

اگر شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی امریکی تنظیمیوں کی نظر سے دیکھا جائے تو اس تنازع میں فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اگر امریکی صدارتی انتخابات سے قبل یہی حالات رہتے ہیں تو اسرائیل کی حمایت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

یہ اس ملک کے لیے انتہائی عجیب و غریب بات ہوگی جو ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالرز دیتا ہے کیونکہ چھوٹی سی تبدیلی بھی مستقبل کا منظرنامہ بدلنے میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔


یہ مضمون یکم نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں