خیبرپختونخوا کے ڈیرہ ٹانک روڈ سے اغوا ہونے والے جج شاکراللہ مروت کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی ڈیرہ اسمٰعیل خان میں درج کرلیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر میں دہشتگردی کی دفعات سمیت دیگر دفعات شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ڈیرہ ٹانک روڈ گرہ محبت موڑ پر جب جج کی گاڑی پہنچی تو 25 سے 30 ملزمان وہاں کھڑے تھے، ملزمان بھاری اسلحے سے لیس تھے اور انہوں نے 4،5 موٹرسائیکلوں سے روڈ بلاک کررکھا تھا، ملزمان نے گاڑی کو روک کر اس پر فائر کیے، فائرنگ سے جج اور ڈرائیور گاڑی سے اتر گئے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مبینہ دہشتگردوں نے جج کے ڈرائیور کی آنکھ پر کپڑا باندھا اور 5 دہشتگرد جج کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے، 40 منٹ کے بعد گاڑی کو روکا تو گاڑی جنگل پہنچ چکی تھی، جج پینٹ شرت پہنے ہوئے تھے، ملزمان نے گاڑی میں سے شلوار قمیض نکال کر ان کو اسے پہننے کو کہا، جج نے لباس تبدیل کیا، بعدازاں دہشتگردوں نے گاڑی کو آگ لگادی۔

ایف آئی آر کے مطابق ڈرائیور کو رہا کرکے دہشتگردوں نے اپنا پیغام پہنچانے کو کہا، دہشتگردوں نے کہا کہ ان کے رشتہ داروں اور خواتین کو جیلوں میں رکھا ہوا ہے، دہشتگرد اپنے مطالبات پیش کریں گے، اگر پورے کیے تو جج کو چھوڑ دیں گے، ورنہ سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

اس میں مزید بتایا گیا ہے کہ دہشتگرد جج کو موٹرسائیکل پر لے کر جنگل کی طرف روانہ ہوگئے۔

جج کے اغوا کا واقعہ کب پیش آیا؟

یاد رہے کہ 27 اپریل کو خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں تعینات سیشن جج شاکراللہ مروت کو اغوا کرلیا گیا تھا

خیبر پختونخوا پولیس نے بتایا تھا کہ سیشن جج شاکر اللہ مروت ٹانک سے ڈیرہ اسمٰعیل خان جارہے تھے کہ مسلح افراد نے ڈیرہ روڈ بھگوال سے انہیں اغوا کرلیا۔

رپورٹ کے مطابق جاتے ہوئے نامعلوم مسلح اغواکاروں نے سیشن جج کے ڈرائیور کو چھوڑ دیا۔

پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا، تاحال سیشن جج کو بازیاب کرانے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔

بعد ازاں خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں تعینات سیشن جج شاکراللہ مروت کے اغوا سے متعلق خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں