لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

ایک بار پھر الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے عمومی دباؤ میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ دے دی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تاریخ جنوری کے آخری ہفتے کی نہیں ہے جیسا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا تھا، بلکہ یہ تاریخ 8 فروری کی ہے۔

لیکن الیکشن کمیشن نے تو پنجاب میں انتخابات کے لیے بھی ایک تاریخ دی تھی لیکن پھر اس کا کچھ نہ بنا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فروری کی تاریخ کے بارے میں بھی شکوک و شبہات برقرار رہیں گے۔ حالانکہ چیف جسٹس نے ہمیں فکر نہ کرنے کا کہا ہے لیکن یہاں دراصل وہ دودھ کا جلا والا معاملہ ہے۔

لیکن صرف الیکشن کمشنر کو مورد الزام ٹھہرانا ناانصافی ہوگی۔

بات یہ ہے کہ صرف الیکشن کی تاریخ کا اعلان لوگوں، بشمول بیرون ملک مقیم لوگوں کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ ایسے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں جن کا انتخابات کی حتمی تاریخ پر اثرانداز ہونے کا امکان الیکشن کمیشن اور اس کی طرف سے دی گئی تاریخوں سے زیادہ ہے۔

ان میں سے ایک تو یقیناً نواز شریف کی واپسی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب اور اس سے باہر پارٹی قائد کی مقبولیت کو ظاہر کرتے ہوئے ان کے لیے شاندار استقبال کا اہتمام کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ بات انتخابات ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے کیونکہ اس ایک واقعے نے پارٹی کی قسمت جگانے کے لیے کسی دوسرے کے بیان سے زیادہ کام کیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ خود مسلم لیگ (ن) کے لوگ یہ اشارہ کرتے ہیں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے لیے ترپ کا پتہ ہیں، وہ انہیں ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، اگر انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے ہیں تویہ ان کے لیے نقصان کا سبب بنے گا اور اب جبکہ نواز شریف واپس آچکے ہیں اور ایک ماحول بھی تیار ہوگیا ہے تو سب سے بہتر یہی ہوگا کہ اس کا انجام انتخابات پر ہی ہو۔

یقیناً یہاں اقتصادی صورتحال بھی اہمیت رکھتی ہے بلکہ کچھ لوگوں کے نزدیک تو یہ بنیادی پہلو ہے۔ مالیاتی بحران اور نو ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے ساتھ، جس کے بعد ایک طویل پروگرام شروع ہونا ہے، یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایک توسیع شدہ نگران سیٹ اپ (جس کی کوئی واضح مدت نہیں ہے) دنیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

بہر حال، تمام دوست ممالک کی طرف سے عوامی سطح پر بھی اور اس کے علاوہ بھی ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کی ضرورت کے بارے میں کافی پیغامات آئے ہیں۔ (کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے باقی دنیا سیاست اور معاشیات کے درمیان تعلق کا غیر منطقی عقیدہ رکھتی ہے۔)

خلیجی ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری کے بارے میں خبروں کی کمی کے بعد سے یہ خیال مضبوط ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی امداد کے لیے انتخابات ضروری ہوسکتے ہیں۔ اس وقت تو ایسا لگتا ہے کہ ہم بس آئی ایم ایف کی فنڈنگ ​پر ہی بھروسہ کرسکتے ہیں۔ شاید یہ مکمل طور پر اتفاق نہیں ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان اس وقت کیا گیا جب ایس بی اے کی دوسری قسط کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات پر توجہ مرکوز کی جا رہی تھی۔

ہم میں جو لوگ اس طرح کی پیش رفت کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں انہیں انتخابات کی دیگر چھوٹی چھوٹی نشانیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے موجودہ اور سابق اراکین کی دوبارہ گرفتاریاں ایک خاص گھبراہٹ کو ظاہر کرتی ہے جو صرف اس صورت میں ہوگی کہ اگر انتخابات ہونے والے ہوں۔

سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے کامران بنگش اور اسد قیصر کو گرفتار کیا گیا۔ پنجاب کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کو اب بھی ذرا نرمی سے ہینڈل کیا جا رہا ہے۔ پھر نہ جانے کیوں فواد چوہدری کو گرفتار کر لیا گیا جو پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکے تھے۔

لوگوں کے خیال میں ان کی گرفتاری کی وجہ استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے سے ہچکچاہٹ تھی۔ اگر کوئی اس کے برعکس سوچتا ہے تو وہ صرف فواد چوہدری کے خلاف شکایت درج کروانے والی ماں ہی ہوسکتی ہے جس کے خیال میں فواد چوہدری نے اس کے بیٹے سے رقم ہتھیائی ہے۔

ان تازہ گرفتاریوں اور صحافیوں کو چھوڑے جانے کی خبروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بہت متحرک رہنے والے کچھ لوگوں کی خاموشی سے بھی لگتا ہے کہ انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ورنہ یہ ساری توانائیاں اور وسائل لوگوں کو اٹھانے اور گھروں پر چھاپے مارنے یا روپوش افراد پر نئے الزام لگانے پر کیوں ضائع کیے جاتے؟

لیکن ابھی انتخابات راستہ خاطر خواہ حد تک ہموار نہیں ہوا ہے۔ ایسا صرف اس لیے نہیں کہ چھے ماہ کی سخت محنت کے بعد بھی پی ٹی آئی کے مکمل طور پر ختم نہ ہونے کا خدشہ ہے، یا اس لیے کہ لوگوں میں انتخابات کے انتظار کی وجہ یہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے خلاف اتنے ووٹ دے سکیں جتنے وہ پی ٹی آئی کے حق میں دینا چاہتے ہیں۔

اس کی اصل وجہ تو اس وضاحت کا فقدان ہے کہ پی ٹی آئی کی شکست کو یقینی بنانے کے بعد کیا کرنا ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کو دیکھیے۔ اگر منصوبہ پی ٹی آئی کی شکست اور مسلم لیگ (ن) کی ایک ’معقول‘ جیت (بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے 2013ء جیسی فتح نہیں دی جائے گی) کو یقینی بنانا ہے تو باقی کن افراد یا جماعتوں کو نشستیں جیتنے کی اجازت دی جائے گی۔

مسلم لیگ (ن) 70 کے لگ بھگ سیٹوں تک محدود رہی تو پنجاب سے قومی اسمبلی کی باقی سیٹوں کا کیا ہوگا؟ کیا وہ آئی پی پی کے پاس جائیں گی یا آزاد امیدواروں یا پھر پی ٹی آئی کے پاس؟ اور پھر یہ کہ اس کا انتظام کرنا کتنا آسان ہوگا؟

دوسری طرف اگر مسلم لیگ (ن) کو کلین سویپ کرنے دیا جائے تو کسی نئی ہنگامہ آرائی کو کیسے روکا جائے گا؟ پھر خیبر پختونخوا میں کیا ہوگا، جہاں نگران سیٹ اپ کی شکل میں جے یو آئی (ف) کا تجربہ تباہ کن تھا؟ وہاں دیگر جماعتوں میں سے کوئی بھی پی ٹی آئی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ نمبر گیم کو سنبھالنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ہے، صدر مشرف اپنے اقتدار کے عروج پر بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے تھے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد حکومت قائم کرنے کے لیے پی پی پی پیٹریاٹس کے نام سے ایک دھڑے کو تشکیل دینا پڑا تھا۔

سندھ کی بات کی جائے تو یہی کہا جاتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے دوران سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیمت پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی حوصلہ افزائی کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن کسی موقعے پر یہ منصوبہ (اور جی ڈی اے) خاک میں ملا دیا گیا اور پیپلز پارٹی کو پہلے سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پاک سرزمین پارٹی کو بھی اتنی جلدی چھوڑ دیا گیا جتنی جلدی شاید انجلینا جولی نے بھی بریڈ پٹ کو نہیں چھوڑا تھا۔

اس بار منصوبے بہت واضح نہیں ہیں اور معیشت کی صورتحال اس سے بھی زیادہ غیر واضح ہے۔ میں نے ابھی عوام کی بات ہی نہیں کی اور الفاظ کی حد پوری ہوچکی ہے۔ بہرحال ابھی پردہ گرنے میں بہت وقت ہے۔


یہ مضمون 7 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں