’ڈاکٹر صاب۔۔۔ ایکلیمپشیا آیا جے!‘

لیبر روم کی آیا کی پکار سنتے ہی کھلبلی مچ جاتی، جو جہاں ہوتا بھاگ اٹھتا۔

سامنے اسٹریچر پر ایک عورت دنیا و مافیہا سے بےخبر آڑی ترچھی لیٹی نظر آتی۔ منہ سے بہتے ہوئے جھاگ، بھنچے ہوئے دانت، اوپر کو پھری ہوئی آنکھیں، جھٹکے کھاتا جسم، بازو اور ٹانگیں بندھی ہوئی، پیشاب اور پاخانے میں لتھڑے ہوئے کپڑے۔۔۔

’ماسی اسے ڈارک روم میں شفٹ کرو جلدی‘۔۔۔ ’سسٹر جی کینولا پاس کریں‘۔۔۔ ’انجیکشن ویلیم لگائیں جلدی‘۔۔۔ ’منہ میں ماؤتھ گیگ دیں‘۔۔۔ ’بلڈ پریشر چیک کریں‘۔۔۔ ’پیشاب کی نالی بھی ڈال دیں‘۔۔۔ ’البومن چیک کرکے بلڈ انویسٹی گیشنز بھیج دیں ارجنٹ‘۔

’ڈاکٹر شفانہ، آپ پی وی کرکے دیکھیں کہ بچے دانی کا منہ کیسا ہے؟۔۔۔‘ ’ڈاکٹر راحیلہ، آپ الٹرا ساؤنڈ کرکے دیکھو بچے کی کیا کنڈیشن ہے؟‘۔۔۔ ’ڈاکٹر فضا آپ بے ہوشی اور بچہ وارڈ کے ڈاکٹرز کو الرٹ کر دو‘۔

یہ لیبر روم کی انچارج ڈیوٹی ڈاکٹر تھیں جن کے منہ سے یہ سارے جملے مشین گن کے فائر کی طرح نکل رہے تھے۔

’نہ جانے کہاں بیٹھی رہتی ہیں یہ عورتیں؟ کیس خراب ہوجاتا ہے تو ہمارے پلے پڑ جاتی ہیں‘، ایک نرس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

’نہیں جی ہم نے دیر بالکل نہیں کی تھی۔ پہلے گاؤں کے اسپتال گئے تو انہوں نے مریدکے بھیج دیا، مریدکے اسپتال والوں نے کہا لاہور لے جائیں تو اسی میں دو چار گھنٹے گزر گئے‘، اسٹریچر کے قریب کھڑی ایک مضمحل چہرے والی عورت نے کہا۔

اسپتال کے اسٹریچر پر ایک حاملہ عورت پڑی تھی جس کے منہ سے جھاگ آرہا تھا
اسپتال کے اسٹریچر پر ایک حاملہ عورت پڑی تھی جس کے منہ سے جھاگ آرہا تھا

’کونسا بچہ ہے یہ؟‘ ایک اور نرس نے پوچھا۔

’چھٹا‘، عورت نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا۔

’اُف خدایا! تم لوگ بند کیوں نہیں کرتے ہو بچے پیدا کرنا؟ پانچ بچے کیا کافی نہیں تھے؟‘ ڈاکٹر شفانہ کے ماتھے پر ناگواری تھی۔

’بس جی اس بے چاری نے تو تین کے بعد ہی کہنا شروع کردیا تھا پر اس کا شوہر نہیں مانا‘۔

’کیوں؟‘

’وہ جی اسے ایک اور بیٹا چاہیے تھا‘۔

’اور اب اگر یہ مر گئی تو؟‘ ڈاکٹر راحیلہ کے لہجے میں تلخی تھی۔

’اسے کیا فرق پڑے گا ڈاکٹر جی؟ وہ دوسری عورت بیاہ کر لے آئے گا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح ہی تو ہیں عورتیں، ایک گئی دوسری آئی‘۔ عورت سمجھ دار معلوم ہوتی تھی۔

’اور بچے؟‘

’بچوں کا کون سوچتا ہے جی؟ انہیں کوئی جیتا جاگتا انسان تو مانتا نہیں۔ ادھر ادھر رل کر بڑے ہو جائیں گے ۔‘

یہ گنگارام اسپتال کا لیبر روم تھا۔ ہم فائنل ایئر میں پڑھتے تھے اور گائنی ڈیوٹی پر معمور تھے۔ ہمارے ساتھ پڑھنے والی زیادہ تر لڑکیوں کو نہ تو گاؤں کی زندگی کاعلم تھا اور نہ ہی گاؤں کے آس پاس بنے قصبات کی مشکلات کا اندازہ تھا۔ اتفاق سے ہم گاؤں اور قصبات کی حالت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ شاید ان سب مشکلات کو سمجھتے بھی تھے۔ امی ابا کا گاؤں سے تعلق رکھنا اور گاؤں والوں کا علاج کے لیے شہر کے اسپتال پہنچنا حافظے میں محفوظ تھا۔

اس زمانے میں اکلیمپسیا کی شکار عورت کو ایک اندھیرے کمرے میں رکھا جاتا تھا کہ کسی بھی طرح کا شور یا روشنی سے اس کے دوروں میں شدت نہ آ جائے۔ آج یہ خیال تبدیل ہوچکا ہے کیونکہ ماڈرن سائنس اور دوائیں ذہن/دماغ میں بگڑی صورت کو درست کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

پچھلے بلاگ میں ہم نے پری اکلیمپسیا کا ذکر کیا جو حاملہ عورت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور اگر اس گھنٹی کو نہ سنا جائے تب نتیجہ اکلیمپسیا کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

اکلیمپسیا Eclampsia میں حاملہ عورت مرگی جیسے دوروں کا شکار ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہم نے لکھا، پری اکلیمپسیا میں حاملہ عورت کا بلڈپریشر خطرناک حد تک ہائی ہوجاتا ہے۔ ساتھ میں دیگر زہریلے مادے جسم کے مختلف اعضا کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ سویئر پری اکلیمپسیا حاملہ عورت کے دماغ کو پہنچنے والی آکسیجن کو کم کرتا ہے۔ نتیجتاً دماغ سے نکلنے والی برقی رو میں خلل/خرابی کی وجہ سے مرگی جیسے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ ان دوروں میں عورت بے ہوش ہوجاتی ہے، جسم تشنج کی صورت جھٹکے لیتا ہے، منہ سے جھاگ نکلتا ہے، دانتوں تلے آکر زبان کٹ جاتی ہے، پیشاب اور پاخانہ خطا ہوجاتا ہے۔

ان تشنجی دوروں کو مرگی کی طرز پر ہی کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن مستقل حل صرف ایک ہی ہے کہ فوراً سے پیشتر بچہ پیدا کروا لیا جائے چاہے بچہ زندہ بچے یا نہ بچے۔

اکلیمپسیا ایسی ایمر جنسی ہے جو نشان دہی کرتی ہے کہ حاملہ عورتوں کے لیے موجود سہولیات کافی ہیں یا نہیں؟ اصل میں یہ ایک پیمانہ ہے جس کی روشنی میں عورتوں کی زندگی کو درپیش خطرات کو گنا جاسکتا ہے۔

اکلیمپسیا کو کنٹرول کرنے کا طریقہ تو ڈیلیوری ہی ہے لیکن عورت کو کس قدر نقصان پہنچا ہے یا پہنچے گا، اس کا فیصلہ دو یا چار دن بعد ہی ہوتا ہے۔

اکلیمپسیا کے نتیجے میں دل کا دورہ، فالج، گردے/جگر فیل ہونا اور پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا بھی ممکنات میں شامل ہے۔ بعض اوقات بچہ اسپتال پہنچنے سے پہلے پیٹ میں ہی مر جاتا ہے اور اگر جسم پیچیدگیوں کا شکار ہوجائے تو حاملہ عورت بھی موت کے منہ میں اتر جاتی ہے۔

حاملہ عورت موت کے منہ میں کیسے اترتی ہے؟
حاملہ عورت موت کے منہ میں کیسے اترتی ہے؟

پاکستان میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق اکلیمپسیا کی شکار جو عورتیں بڑے شہروں کے ٹیچنگ اسپتالوں تک پہنچتی ہیں، ان میں سے 34 فیصد موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اگلا سوال یہ ہے کہ پہنچنے سے پہلے ہی کتنی مرجاتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں حاملہ عورتوں کے مرنے کی شرح میں افغانستان کے بعد ہمارا نمبر ہے۔ سوچیے 11 کروڑ عورتوں کے لیے کس قدر غیر محفوظ ہے ارض پاکستان جہاں وہ ماں بننے کے عمل میں زندگی اور موت کے بیچ بنی لکیر پر چلتی ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟

اس لیے ہم کہتے ہیں کہ گائنی فیمینزم کے ذریعے حمل اور زچگی کی پیچیدگیوں کو سمجھیے اور موت کو شکست دیجیے۔ رہا سوال سہولیات فراہم کرنے کا تو وہ ایجنڈا ہمارے یہاں کسی کے لیے بھی اہم نہیں کہ عورت کا کیا ہے؟ ایک مرے گی، دوسری آجائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں