دنیا بھر میں بلڈ پریشر اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے حاملہ عورتوں کے مرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ بلڈپریشر سے ہونے والی پیچیدگیوں میں فالج، گردے فیل ہونا، نابینا پن، ہارٹ اٹیک، بچے کی پیٹ میں موت اور مرگی جیسے دورے شامل ہیں۔

جب بلڈ پریشر کے ساتھ ان میں سے کوئی بھی پیچیدگی ہو تو اس صورتحال کو پری اکلیمسیا یا اکلیمپسیا کہا جاتا ہے جن کے بارے میں ہم تفصیلات لکھ چکے ہیں۔

ہم سوچتے ہیں کہ ایسا کیا کیا جائے کہ ہر عورت چاہے وہ گاؤں میں رہتی ہو یا شہر میں بلڈپریشر اور ان پیچیدگیوں کے بارے میں نہ صرف جانتی ہو بلکہ اپنی جان کی حفاظت کر سکے۔

سمجھ لیجیے کہ جب بھی حمل ہو تو ہر مہینے چیک اپ کروانا لازم ہے لیکن یہ چیک اپ بچے کے لیے نہیں، ماں کے لیے ہونا چاہیے۔

ہر مہینے حاملہ عورت کا بلڈ پریشر چیک ہو اور اس کا ریکارڈ رکھا جائے۔ اگر بلڈ پریشر میں گڑ بڑ نظر آ جائے تو گھر پر چیک کرنے والا آلہ خرید لینا چاہیے۔ دو قسم کے آلے بازار میں موجود ہیں۔ آٹومیٹک اور مینوئل۔ آٹومیٹک تو ہے ہی آسان، مینوئل سیکھنا بھی مشکل نہیں۔ بس یہ یاد رکھیے کہ بلڈ پریشر کی دو ریڈنگز ہوتی ہیں۔ سسٹولک اور ڈایا سٹولک۔ عرف عام میں سسٹولک کو اوپر والا بلڈ پریشر کہتے ہیں اور ڈایاسٹولک کو نیچے والا۔

ایک عام سا فارمولا یاد کر لیجیے کہ نیچے والا بلڈ پریشر 90 سے اوپر نہیں جانا چاہیے اور اوپر والا 150 سے نیچے رہنا چاہیے۔

دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ پیشاب کا چیک اپ ہے۔ حاملہ عورت کے پیشاب میں دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں شوگر اور پروٹین۔ یہ ٹیسٹ ایک منٹ کے اندر ہوتا ہے اور اس میں ایک اسٹرپ ڈال کر دیکھا جاتا ہے۔ پیشاب میں پروٹین آئے یا شوگر، سمجھیے کہ خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ حاملہ عورت بلڈ پریشر اور اس کی پیچیدگیوں کی طرف سفر شروع کرچکی ہے۔

ہمارے یہاں حاملہ عورت کے چیک اپس کو نامکمل سمجھا جاتا ہے اگر بچے کو الٹرا ساؤنڈ پر نہ دیکھا جائے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اگر حاملہ عورت کے پیٹ سے کوئی ابنارملٹی ظاہر نہ ہو تو الٹرا ساؤنڈ 9 ماہ میں تین یا چار بار سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن بلڈ پریشر اور پیشاب کا چیک اپ؟ اس کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بلڈ پریشر بڑھ رہا ہو تو اسے اپنی مصروفیت کے کھاتے میں مت ڈالیے۔ اکثر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔

’یہ اس لیے ہو گیا ہو گا کہ میں پچھلی رات سوئی نہیں‘۔

’یہ اس لیے ہو گیا ہوگا کہ کل شام کپڑے دھوئے تھے‘۔

’یہ اس لیے ہو گیا ہو گا کہ بازار سے چل کر واپس آئی‘۔

ان تمام توجیہات کو سن کر ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اس طرح تو ہم ڈاکٹرز کا بلڈ پریشر نارمل ہونا ہی نہیں چاہیے جو راتوں کو جاگتی بھی ہیں، کام بھی کرتی ہیں اور بازار بھی گھومتی ہیں۔

بلڈ پریشر جب بھی ہائی ہو اس کو ڈاؤن کرنے والی دوا کھانی چاہیے۔ ایسی بہت سی دوائیں ہیں جو حاملہ عورت کے لیے خاص طور پر بنائی گئی ہیں ان میں میتھائل ڈوپا اور لیبیٹولول سر فہرست ہیں۔ ان دواؤں کی کم ازکم خوراک صبح دوپہر شام ایک گولی ہے جو بوقت ضرورت بڑھائی جاتی ہے۔

بلڈ پریشر کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے دوائی کھانا تو ضروری ہے ہی لیکن خون کے ٹیسٹ بھی کرواتے رہنا چاہئیں۔ مقصد ایک ہی ہے کہ جب بھی کوئی پیچیدگی شروع ہونے لگے، حمل ختم کردیا جائے۔ حمل ختم کرنے کے معنی یہ نہیں کہ بچہ مار دیا جائے بلکہ بچے کو پیدا کروا لیا جائے تاکہ ماں بچ جائے۔ حمل ختم ہو جانے کے بعد زیادہ تر خواتین میں بلڈ پریشر نارمل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جن میں نارمل نہ ہو ان میں دواؤں کا استعمال جاری رکھا جاتا ہے۔

اگر ایسا موقع آ جائے کہ ماں کی جان بچانے کے لیے بچہ پیدا کروایا جانا ہو تب یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کس طریقے سے؟

کبھی کبھی صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ بچے کو فوراً پیٹ سے نکالنا ہی بہترین حل ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر ویجائنل ڈیلیوری کا سوچیں تو درد زہ دواؤں سے شروع کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور اتنا وقت ماں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ایسے لمحات میں سیزیرین کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں مریضہ کے لواحقین سمجھ نہیں پاتے کہ ڈاکٹر ایسا کیوں کررہا ہے؟ ہمارے تجربے میں اگر لواحقین کو صورتحال سمجھا دی جائے تو ان کے اعتراضات کافی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔

بلڈ پریشر کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے دوائی کھانا تو ضروری ہے
بلڈ پریشر کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے دوائی کھانا تو ضروری ہے

بچہ اگر پورے دنوں کا نہ ہو تو نرسری میں رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات پری میچیور بچہ بچ نہیں پاتا لیکن ماں کی زندگی کے سامنے یہ قربانی دینی پڑتی ہے۔

اگر حاملہ عورت کو اچانک چکر آنے لگیں، سر میں درد رہنے لگے، جی متلا نے لگے، پاؤں سوج جائیں تب بھی فوراً بلڈ پریشر چیک کروانا چاہیے۔ یقین کیجیے جسم ہمیشہ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے تاکہ بروقت سد باب کیا جاسکے۔

ہمارا پیغام ہے کہ حاملہ عورت ہر مہینے اپنا بلڈ پریشر چیک کروائیں۔ اس کو ایک نوٹ بک میں لکھے اور ہر بار اپنا پیشاب چیک کروا کر ڈاکٹر سے پوچھے کہ اس میں شوگر یا پروٹین تو نہیں ہے؟

جانیے اپنے جسم کو، حفاظت کیجیے اس کی! یہ زندگی ہے آپ کی۔ یہی ہے گائنی فیمنزم!

تبصرے (0) بند ہیں