بھارتی سپریم کورٹ نے ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں مدارس پر پابندی سے متعلق زیریں عدالت کا حکم معطل کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ حکم ملک میں ہونے والے عام انتخابات سے عین قبل سامنے آیا ہے جس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری مدت کے لیے حکمرانی کی امید کررہے ہیں۔

اتر پردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کو اتر پردیش کے اسلامک اسکول بورڈ پر پابندی کا حکم دے دیا تھا، بعدازاں ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

ہائی کورٹ کے فیصلے نے نے اتر پردیش میں مدارس سے متعلق 2004 کے قانون کو ختم کر دیا تھا، فیصلے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قانون بھارت کے آئینی سیکولرازم کے خلاف ہے، اس میں حکم دیا گیا ہے کہ طلبہ کو روایتی اسکولوں میں منتقل کیا جائے۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا حکم نامہ معطل کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل پر اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وکلا کا کہنا ہے کہ اس کیس کا جولائی میں جائزہ لیا جائے گا اور ’اس وقت تک تمام معاملات رکے رہیں گے۔‘

مدرسہ کہلانے والے اسلامی سکولوں پر پابندی کو ملک کی سب سے بڑی اقلیت پر حملے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور اس کی وجہ سے دوسری ریاستوں میں بھی مدرسوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔

اتر پردیش میں بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے عدالت کے حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’بڑی جیت‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم تقریباً 16 لاکھ طلباء کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے اور اب اس حکم کے بعد مدارس میں زیر تعلیم ہزاروں طلبہ نے سکون کا سانس لیا ہے۔

وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی، بی جے پی جو 10 سال سے اقتدار میں ہے، کو اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور اسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر کو ہوا دینے کے الزامات کا بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

تاہم مودی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ جمہوریت ہی ہے جو سب کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔

بھارت میں اپریل اور جون کے درمیان عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جیت کی توقع کی جا رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں