کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) 2 دن کے اجلاسوں کے باوجود گندم کی خریداری کے لیے صوبوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے واضح کیش کریڈٹ حد کی منظوری دینے میں ناکام رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے دعوی کیا کہ عوامی دلچسپی کے معاملات سے نمٹنے میں تجربہ نہ ہونا اہم عنصر تھا، کیونکہ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب بذات خود تذبذب کا شکار تھے کہ گندم کے آپریشنز کو مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑنے کے بجائے حکومت کو کیش کریڈٹ کی اجازت کی منظوری کیوں دینی چاہیے۔

یہ عدم فیصلہ اس سال گندم کی بمپر فصل کی توقعات کے باوجود سامنے آیا ہے، جس کا محتاط اندازہ 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن سے زائد کا لگایا گیا ہے، جبکہ کچھ اندازے ریکارڈ 2 کروڑ 90 لاکھ ٹن پیداوار کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

ای سی سی کے اراکین، جن میں سے اکثر کمیٹی میں نئے ہیں، کو بیوروکریٹس نے تکنیکی بنیادوں پر گندم کے آپریشن کی بنیادی باتوں اور سیاسی زاویوں سے آگاہ کیا جو وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں سامنے آسکتے ہیں۔

زیادہ تر شرکا منڈی میں گندم کی قیمتوں سے لاعلم تھے، متعدد کی جانب سے گندم کی فی 40 کلو کی 3 ہزار 200 روپے سے لے کر مختلف قیمتیں بتائی گئیں، حالانکہ مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقرر کردہ سرکاری امدادی قیمت 4 ہزار 200 روپے فی 40 کلو سے زائد تھی۔

اشیائے خوراک کا اسٹریٹیجک ذخیرہ برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ملک کی ایجنسی پاسکو کی جانب سے مقرر کردہ قیمت خرید 3 ہزار 900 روپے فی 40 کلو، اس کے بعد سندھ میں 4 ہزار روپے اور بلوچستان میں 4 ہزار 300 روپے ہوں گی، سیکریٹری خزانہ اور خوراک کے اصرار پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ حادثاتی چارجز متعلقہ صوبائی حکومتیں برداشت کریں گی۔

ایک شرکا نے ڈان کو بتایا کہ آخر کار ای سی سی نے چھوٹے اسٹیک ہولڈرز کے لیے گندم کے آپریشن کے لیے تقریباً 275 ارب روپے کیش کریڈٹ کی حد منظور کی تاکہ پبلک سیکٹر میں 24 لاکھ 50 ہزار ٹن گندم کی خریداری کو یقینی بنایا جائے۔

تاہم اس میں بڑے پروڈیوسر اور اسٹیک ہولڈر شامل نہیں ہیں، صرف پنجاب نے گزشتہ برس 45 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کی تھی، اس بار نہ تو کوئی پروکیورمنٹ ٹارگٹ دیا اور نہ ہی کیش کریڈٹ کی حد مانگی گئی۔

274 ارب اور 70 کروڑ روپے کریڈٹ کی ضرورت کے ساتھ کل 25 لاکھ 50 ہزار ٹن خریداری کے اہداف میں سے پاسکو 169 ارب روپے کی کریڈٹ حد کے ساتھ 14 لاکھ ٹن گندم، اس کے بعد 100 ارب روپے سے سندھ سے 10 لاکھ ٹن اور بلوچستان سے 5 ارب 70 کروڑ روپے سے 50 ہزار ٹن گندم خریدے گا۔

وزیر صنعت رانا تنویر حسین جنہیں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا اضافی قلمدان بھی دیا گیا ہے، نے بھی پہلے دن کے صورتحال کے پیش نظر دوسرے روز ای سی سی کے اجلاس میں شرکت کی۔

بنیادی طور پر اس کی وجہ یہ تھی کہ ای سی سی پہلے اجلاس میں معاملے پر آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ڈھونڈ سکا اور اس نے صوبائی حکومتوں کو ان کے مشورے اور ان پٹ کے لیے بلانے کا فیصلہ کیا، صوبوں نے جمعہ کو ای سی سی کے توسیعی اجلاس میں شمولیت اختیار کی، جس میں وزیر خزانہ کی جانب سے اجلاس میں شرکت میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔

ای سی سی نے سندھ حکومت کو تقریباً 200 ارب روپے کی کیش کریڈٹ کی حد کی منظوری دی، اس میں سے نصف تقریباً 10 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کے لیے اور باقی نصف ماضی کے رول اوور کے لیے ہے، ایک اور حکام نے وضاحت کی کہ 10 لاکھ ٹن نئی فصل کے لیے 100 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔

پنجاب نے کریڈٹ لمٹ طلب کرنے سے انکار کر دیا اور زور دیا کہ وہ اس وقت مارکیٹ میں مداخلت کرے گا جب کسانوں سے کم قیمت پر خریداری کا معقول ثبوت ملے گا اور گندم کی منظور شدہ امدادی قیمت پر سرکاری اسٹاک کے لیے ان کی مدد کے لیے آئے گا۔

ای سی سی کے نئے اراکین کو بتایا گیا کہ صوبوں اور وفاقی ایجنسیوں کے لیے مالیاتی شعبے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے کیش کریڈٹ کی حدیں کمیٹی نے منظور کی ہیں تاکہ سرکاری قرضوں اور ضمانتوں پر ایک حد رکھی جا سکے۔

وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے ای سی سی کو متنبہ کیا کہ سندھ، بلوچستان اور پاسکو کی جانب سے اس سال کے لیے 24.5 لاکھ ٹن کے مجوزہ اہداف صوبائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں، حالانکہ گزشتہ مہینے کے طور پر 32.5 لاکھ ٹن کے اسٹاک موجود ہیں، انہوں نے ریکارڈ بتایا کہ گزشتہ سال (2023) کے لیے گندم کی سرکاری خریداری کا ہدف بشمول پنجاب (45 لاکھ ٹن) 78 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں