ضمنی انتخاب میں بیلٹ پیپرز اجرا، ووٹوں کی گنتی مناسب طریقہ کار کے مطابق تھی، فافن

اپ ڈیٹ 23 اپريل 2024
رپورٹ کے مطابق  خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح  میں 12 فیصد اور مردوں  کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی— فائل فوٹو
رپورٹ کے مطابق خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح  میں 12 فیصد اور مردوں  کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی— فائل فوٹو

21 اپریل کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ابتدائی جائزہ رپورٹ جاری کردی۔

فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ضمنی انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 8 فروری کے جنرل الیکشن کی نسبت تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا ، لاہور میں تو ووٹر ٹرن آوٹ واضح طور پر کم ہوا، گجرات، خضدار اور قلعہ عبداللہ میں ووٹرن آوٹ میں شرح بلند ہوئی، گنتی سے خارج ووٹوں کی تعداد بھی آدھی ہوگئی۔

اس میں کہا گیا کہ وزیر آباد اور تلہ گنگ میں کہیں کہیں آزاد جائزہ کاری میں رکاوٹ اور تشدد رونما ہونے کے واقعات دیکھے ، نتائج کی شفافیت اور بیلٹ پیپرز اجرا کے عمل میں بے ضابطگیوں کے کچھ واقعات بھی مشاہدے میں آئے ، ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح تقریبا 36 فیصد رہی ، جو 8 فروری کے انتخابات کے مقابلے میں کم تھی۔

رپورٹ کے مطابق خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح  میں 12 فیصد اور مردوں  کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی، کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 75 ہزار 640 کا اضافہ ہوا، 8 فروری کے عام انتخابات میں ان حلقوں میں  72 ہزار 472 ووٹس گنتی سے خارج ہوئے تھے، ان ضمنی انتخابات میں 35 ہزار 574 ووٹس خارج ہوئے۔

فافن کے مطابق 4 حلقوں میں خارج شدہ ووٹس کی تعداد ، جیتنے والے امیدوار کے مارجن سے زیادہ تھی، 8 فروری کے عام انتخابات میں ایسا کوئی حلقہ نہیں تھا جہاں خارج ووٹس کی تعداد وکٹری مارجن سے زیادہ ہو، پی پی 36 وزیر آباد اور پی پی 93 بھکر کے علاوہ جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران اپنی جیتی گئی نشستیں برقرار رکھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان دو حلقوں میں 8 فروری کو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اور آزاد امیدواروں نے کامیاب ہوئے تھے، ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار یہاں کامیاب ہوئے، پی پی 36 وزیر آباد اور پی پی 93 بھکر میں کامیاب اور رنراپ امیدواروں کے درمیان جیت کا فرق وکٹری مارجن سے کم ہوا۔

فافن نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے دیگر تمام حلقوں میں جیت کے مارجن میں اضافہ دیکھا کیا گیا، پولنگ کا عملہ، پولنگ اسٹیشنز کا قیام، ووٹرز کی شناخت، بیلٹ پیپرز کا اجرا اور ووٹوں کی گنتی، بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ زیر مشاہدہ تقریباً 14 فیصد پولنگ سٹیشنز  پر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسروں کی طرف سے بیلٹ جاریکرنے کی کچھ درکار ضروریات سے اجتناب کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، پولنگ ایجنٹس اور مجاز مبصرین کوووٹنگ اور گنتی کے عمل تک رسائی حاصل رہی تھی۔

فافن نے کہا کہ وزیر آباد میں PP-36 اور چکوال کم تلہ گنگ میں  ،PP-22 آزادانہ مشاہدے پر پابندیاں دیکھنے میں آئیں، 19 پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی حکام یا پریذائیڈنگآفیسرز نےفافن کے مبصرین کو انتخابی عمل کامشاہدہ سے روکا، این اے 207 شہید بینظیر آباد اور PS-80 دادو میں بلا مقابلہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔

فافن نے بلا مقابلہ جیت کی حوصلہ شکنی اور برابری سطح کے میدان کے اصول کو برقرار رکھنے کیلئے  انتخابی امیدواروں کی طرف سے دستبرداری اور استعفوں کی دفعات پر نظرثانی کا مطالبہ کررکھا ہے۔

واضح رہے کہ 21 قومی اور صوبائی نشستوں پر دو روز قبل ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اکثر نشستوں پر کامیاب رہی تھی۔

قومی اسمبلی کے لیے پنجاب کے 2، خیبر پختونخوا کے 2 اور سندھ کے ایک حلقے میں ضمنی انتخابات ہوئے تھے، صوبائی اسمبلیوں کی جن نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا، ان میں پنجاب اسمبلی کی 12 جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کی 2، 2 نشستیں شامل تھیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فارمز 47 کے مطابق قومی اسمبلی کی 5 نشستوں میں سے مسلم لیگ (ن) نے پنجاب سے 2 جبکہ سنی اتحاد کونسل اور آزاد امیدوار نے خیبرپختونخوا سے ایک ایک نشست حاصل کی، دریں اثنا، پیپلز پارٹی نے سندھ سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے 10 صوبائی نشستیں حاصل کیں جبکہ استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) ایک نشست پر کامیاب ہوئی، خیبرپختونخوا میں ایک، ایک نشست سنی اتحاد کونسل اور آزاد امیدوار کے حصے میں آئی۔

بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل نے ایک ایک صوبائی نشست جیتی، اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پی بی 50 سے ایک صوبائی نشست بھی جیت لی، جہاں دوبارہ پولنگ ہوئی تھی۔

دریں اثنا، سندھ میں این اے 196میں پیپلز پارٹی بھاری مارجن سے کامیاب ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں