لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

اتوار عموماً آرام کا دن ہوتا ہے لیکن حکومتِ پاکستان کے امور چلانے والے محنتی لوگوں کے لیے یہ آرام کا دن نہیں۔ حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے مرد اور کبھی کبھی خواتین، آرام نہیں کرتے۔ یہ اتوار بھی کچھ مختلف نہیں تھا کیونکہ ہمارے وزیراعظم بیرونِ ملک سرکاری دوروں میں مصروف ہیں لیکن اس کے باوجود وزیراعظم نے اسلام آباد میں موجود اپنا زیرِ التوا کام کیا اور موجودہ وفاقی وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

توقع کے مطابق اس فیصلے نے صحافیوں اور تجزیہ کاروں میں ایک ہلچل مچا دی اور یوں انہیں ویک اینڈ پر گفتگو کا موضوع مل گیا۔

کیا اسحٰق ڈار کی واپسی ہوگئی ہے؟ کیا نواز شریف خود کو مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں؟ اس سب کا شہباز شریف کے لیے کیا مطلب ہے؟ سوالات اور ان کے جوابات آنے والے دنوں میں شاید موضوعِ بحث رہیں۔ یوں رانا ثنااللہ اور جاوید لطیف کو ٹی وی چینلز پر آنے کا موقع ملے گا۔ شاید اس سے قبل صحافیوں کی ان دو سیاستدانوں میں کم ہوتی دلچسپی کے باعث یہ انٹرویوز میں کم نظر آرہے تھے۔

دیگر الفاظ میں اسحٰق ڈار کی تقرری سے ان چہ مگوئیوں کو مزید تقویت ملے گی جو حکمران جماعت کے اندرونی اختلافات سے متعلق ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی اندرونی کشمکش کی کہانیاں نئی نہیں، یہ بازگشت شاید اس وقت سے سننے میں آرہی ہیں جب 2016ء میں مسلم لیگ (ن) اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات ہوئے تھے۔ ان ’رپورٹڈ‘ اختلافات کی شدت میں اتار چڑھاؤ تو آتا رہتا ہے لیکن عام انتخابات نے ان میں بڑی دراڑ ڈال دی ہے۔

یہ صرف جاوید لطیف کے ان گنت انٹرویوز کی وجہ سے نہیں جن کے پاس اس وقت بھی ان انٹرویوز کے لیے وقت تھا جب وہ بنا کسی قلم دان کے وزیر تھے اور اب تو وہ وزیر ہیں نہ ہی رکنِ قومی اسمبلی۔ رانا ثنااللہ بھی بوریت کا شکار نظر آتے ہیں۔

ان کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور دیگر معاملات پر تبصرے جیسے مسلم لیگ (ن) انتخابات کیوں ’ہاری‘ (جاوید لطیف کے مطابق یہ اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات کا نقصان اٹھانا پڑا اور پی ٹی آئی بھی یہی الزام لگاتی نظر آتی ہے)، اس نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ ان رہنماؤں کے انٹرویوز مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کیا اشارے کرتے ہیں۔

یہ دونوں رہنما شہباز شریف کے خلاف یعنی نواز شریف کیمپ کا حصہ ہیں اور گمان ہوتا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم کے اشارے پر ہی ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے انتخابات کی ساکھ کے حوالے سے سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔

لیکن شریف گھرانے میں یہ واحد پریشانی نہیں۔ بعض نے نواز شریف کی پارلیمنٹ میں غیرحاضری اور اسلام آباد میں ان کی عدم موجودگی کی جانب اشارہ بھی کیا ہے جہاں ان کے چھوٹے بھائی حکمرانی کررہے ہیں۔ وہ اب صرف مریم نواز کے ہمراہ نظر آتے ہیں جیسے پنجاب کابینہ کے اجلاس، ملاقاتوں اور نان روٹی کی قیمتوں کا جائزہ لینے کے لیے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ دانستہ طور پر اسلام آباد کی حکومت سے دوری اختیار رکھے ہوئے ہیں اور اپنی بیٹی کے سیاسی مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ’کامیابی‘ سے شاید کچھ تبدیلی آئی ہے۔ ’نواز شریف کیمپ‘ کی جانب جھکاؤ رکھنے والے رہنما انٹرویوز میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حق میں بات کرتے نظر آئے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب عارف حبیب جیسی کاروباری شخصیت نے شہباز شریف کو ایسی تجویز دی تو اس پر ان کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

اس کے ساتھ ہی ایک پارٹی اجلاس ہوا جس کے بعد رانا ثنااللہ نے اعلان کیا کہ نواز شریف سے دوبارہ پارٹی معاملات سنبھالنے کے لیے کہا جائے گا کیونکہ ان کے خلاف مقدمات ختم ہوچکے ہیں اور ان کے پارٹی عہدہ رکھنے پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔ اور اب اسحٰق ڈار کی تقرری، کوئی یقین نہیں کرے گا کہ مسلم لیگ (ن) معمول کے فیصلے کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پہلے دن سے ہی اسحٰق ڈار کو نائب وزیراعظم بنا دیا جاتا۔ واضح طور پر کچھ تبدیل ہوا ہے جس کی وجہ سے ایسا قدم اٹھایا گیا ہے اور مسلم لیگ (ن) میں طاقت کے توازن میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔

اسحٰق ڈار کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی شریف خاندان اس ملک میں آنے والی تبدیلی کو سمجھ نہیں پایا ہے جہاں وہ حکمرانی کررہے ہیں یا وہ عوام میں اپنی حمایت کیوں کھو رہے ہیں۔ وہ خاندانوں اور موروثی سیاست کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ورنہ وہ پہلے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم جیسے اعلیٰ عہدے خاندان میں رکھ کر اب خاندان کے ایک اور فرد کو نائب وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیوں کریں گے؟

مزید یہ کہ اس اقدام سے متزلزل حکومت میں بے یقینی کے عنصر کا اضافہ ہوگا کیونکہ اس سے شریف خاندان میں اختلافات کی افواہوں زور پکڑ لیں گی اور اس سے اس خیال کو تقویت ملے گی کہ شہباز شریف ایک کمزور وزیراعظم ہیں۔ شہباز شریف پہلے ہی ان خیالات سے لڑرہے ہیں کہ انہیں ایک منظم مینڈیٹ حاصل ہے جس میں فیصلہ سازی کا اختیار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ کلیدی فیصلے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے لیے جاتے ہیں جبکہ ان کی کابینہ میں شامل ارکان بھی ان کی مرضی سے شامل نہیں کیے گئے۔

یہ بحث کہ نائب وزیراعظم کا عہدہ نمائشی ہوتا ہے، یہاں یہ غیرمتعلقہ ہے۔ بہرحال اسحٰق ڈار کی نواز شریف سے قربت کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اثرورسوخ حاصل ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ لندن میں خودساختہ جلاوطنی سے واپسی پر انہوں نے مفتاح اسمعٰیل کو برطرف کرکے وزیرخزانہ کا عہدہ سنبھالا تھا، تو یہ تصور کرنا کہ ایک نمائشی عہدے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، غلط ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے محمد زبیر کا یہ بیان بھی سنا کہ بطور وزیرِخزانہ اسحٰق ڈار نے کیسے ریاستی اداروں کی نجکاری کے عمل کو ٹالا۔

وہ بطور وزیرخارجہ ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کے عمل کی نگرانی کرتے رہے۔ تو یہ امکان نہیں کہ نائب وزیراعظم بننے کے بعد وہ معاشی معاملات سے دور رہیں گے۔ اگرچہ وہ ایس آئی ایف سی کی فیصلہ سازی پر اثرانداز نہیں ہوپائیں گے لیکن اگر سیاسی سطح پر حکومتی فیصلے ہورہے ہوں تو وزیر خارجہ یا نائب وزیراعظم وہاں موجود ہوں گے جوکہ شریف خاندان کے ’پنجاب باب‘ کے خیالات اور مفادات کی نمائندگی کریں گے۔

درحقیقت اقتصادی اور مالیاتی معاملات میں وہ جو کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کے فیصلوں کا اثر وہاں ہوگا جہاں شہباز شریف بطور وزیراعظم کام کر رہے ہیں۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور حکومتی ترجمانوں کے علاوہ کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ایک معمول کا فیصلہ ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ حکومت کی گاڑی اپنے سفر میں کافی ہچکولے کھانے والی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں